امریکہ اور یورپ میں پھر ٹھن جانے کا اندیشہ
امریکی صدر کی جانب سے ٹرانس ایٹلانٹک اتحاد کے احیا کے نعرے اور جنگ یوکرین میں یورپ کی جانبداری کی پالیسی اپنانے کے باوجود ، واشنگٹن بدستور یورپی مفادات کے منافی اقتصادی اقدامات انجام دے رہا ہے جس پر اعلی یورپی عہدیدار شدید برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔
فرانس کی وزیراعظم ایلزبتھ بورن نےامریکی اقتصادی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین سو ستر ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا بڑا امریکی منصوبہ یورپ کی معیشت کو متاثر کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا یہ منصوبہ عالمی تجارتی تنظیم کے قواعد و ضوابط کے ساتھ بھی سازگار نہیں اور ہم ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہیں گے۔
فرانس نے اس معاملے کو یورپی یونین کی سطح پراٹھانے کی دھمکی بھی دی ہے اور کہا جارہا ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون اپنے مجوزہ دورہ واشنگٹن میں امریکی حکام کے سامنے اس معاملے کو اٹھائیں گے۔
امریکی کانگریس نے گزشتہ موسم گرما کے سیشن میں افراط زر میں کمی، موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے اور بڑی کمپنیوں پر ٹیکس بڑھانے کی غرض سے سرمایہ کاری کا ایک دیوہیکل منصوبہ پاس کیا تھا۔
افراط زر میں کمی کے لیے مختص چار سو تیس ارب ڈالر مالیت کے اس منصوبے میں تین سو ستر ارب ڈالر کی رقم صرف موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے مختص کی گئی ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے اس دیوہیکل منصوبے پرامریکہ کے باہر بھی ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور خاص طور سے یورپ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ والے امریکہ کے اس دیوہیکل اقتصادی منصوبے کے، انرجی سیکٹر خاص طور سے پاور اور سولر پینل انڈسٹری نیز الیکٹرک گاڑیوں کی صنعتوں پرپڑنے والے ممکنہ اثرات سے پریشان ہیں۔
جرمن چانسلر اولاف شلز نے بھی بائیڈن انتظامیہ کے اس دیوہیکل اقتصادی منصوبے پر تشویش ظاہرکرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں خوف اس بات کا ہے کہ یہ منصوبہ امریکی اور یورپی کمپنیوں کے درمیان قیمتوں کی بڑی جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔
اعلی یورپی عہدیدار اور حکام امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ کے خطرات کے بارے میں خبردار کرچکے ہیں، انہوں دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ نے یورپی یونین کے تحفظات دور کیے بغیر اس منصوبے پر عملدرآمد جاری رکھا تو وہ عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او میں واشنگٹن کے خلاف شکایت دائر کرنے پر مجبور ہوں گے۔