امریکی وزیر جنگ کے دورے کے مقاصد، بلی تھیلے سے باہر آ گئی
امریکی وزیر جنگ لوئیڈ آسٹن نے اپنے دورہ مغربی ایشیا کے پہلے مرحلے میں اردن میں پڑاؤ کیا اور ایران روس عسکری تعلقات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے اپنے علاقائی اتحادیوں کو اس بات کا اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ واشنگٹن علاقے میں طویل عرصے تک قیام کے اپنےعہد پر قائم رہے گا۔
امریکی وزیر جنگ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ روس ڈرون ٹیکنالوجی کے بدلے ایران کو دوسری ٹیکنالوجیاں دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
مغربی ممالک کے حکام اس سے پہلے بھی ایران اور روس کے درمیان دفاعی تعلقات کے فروغ پر تشویش کا اظہار اور یہ دعوی کرتے رہے ہیں کہ ایران نے جنگ یوکرین میں استعمال کے لیے روس کو ڈرون طیارے فراہم کیے ہیں حالانکہ تہران اس طرح کے دعوؤں کوسختی سے مسترد کرچکا ہے۔
امریکی وزیر جنگ کا کہنا تھا کہ ہم نے بارہا کہا ہے اور اپنے اتحادیوں کو اطمینان دلایا ہے کہ ہم اس علاقے میں طویل عرصے تک رہیں گے۔ یہ ایک اہم خطہ ہے، نہ صرف امریکہ کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے۔
لوئیڈ آسٹن اردن کے بعد مصر اور مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل کا بھی دورہ کرنے والے ہیں۔
مغربی میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ امریکی وزیر جنگ کے حالیہ دورے کا مقصد چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں خطے میں اپنے اتحادی کی سلامتی کے حوالے سے مطمئن کرنا ہے۔
امریکہ نے تین ہزار چار سو فوجی اہلکار مغربی ایشیا کے مختلف علاقوں میں چھوڑ رکھے ہیں جبکہ مصر اردن اور اسرائیل سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں ۔ امریکہ نے خلیج فارس کے علاقے میں متعدد فوجی چھاونیاں بھی قائم کر رکھی ہیں۔
ایران اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے خطے کو درپیش خطرات کے نام نہاد دعوے مغربی ایشیا میں امریکہ کی عسکری موجودگی کا اصل بہانہ ہیں اور واشنگٹن کافی عرصے سے ایرانوفوبیا مہم کے ذریعے خطے میں اشتعال پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ ایرانو فوبیا کے بہانے ایک جانب خطے میں اپنی ناجائز فوجی موجودگی کا جواز فراہم کرنے میں مصروف ہے تو دوسری جانب اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت سے بھاری منافع کما رہا ہے۔
اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہتھیار فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خلیج فارس میں امریکہ کی فوجی موجودگی اور اس کے اشتعال انگیز اقدامات ہی خطے کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں خطے میں امریکہ کے دو اہم اتحادی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یمن میں تباہ کن جنگ میں مصروف ہیں، غاصب صیہونی حکومت بھی شام کے خلاف آئے دن حملے کر رہی ہے جبکہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی مسلسل دھمکیاں بھی دے رہی ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے عسکری اور سیکیورٹی عہدیداروں نے ایرانو فوبیا مہم کو آگے بڑھاتے ہوئے اب نیا بہانا گھڑا ہے کہ ایران اور روس ناقابل تصور حد تک ایک دوسرے کے ساتھ فوجی اور دفاعی تعاون کر رہے ہیں تاکہ اپنے علاقائی اتحادیوں کو یوکرین میں مغرب کے جنگ پسندانہ نظریات کی حمایت اور کیف کے لیے مغرب کی مالی اور فوجی امداد میں مشارکت پر آمادہ کیا جاسکے۔