May ۰۷, ۲۰۲۳ ۱۳:۵۰ Asia/Tehran
  • چارلز ہمارے بادشاہ نہیں ہمیں  بادشاہت نہیں چاہئیے، برطانوی عوام

چارلز سوم کو ہفتے کے روز ایسی حالت میں تاج پہنایا گیا کہ برطانوی عوام کو ایک جانب معاشی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دوسری جانب انہیں تاجپوشی اور یوکرین کی جنگ کے بھاری اخراجات برداشت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

سحر نیوز/ دنیا: ہفتے کے روز جب چارلز سوم کو ویسٹ منسٹر گرجا گھر میں تاج پہنا کر انہیں ان کے بقول سلطنت الہی کا بادشاہ بنایا جا رہا تھا تو محض چند سو میٹر کے فاصلے پر برطانوی عوام اکیسویں صدی میں بادشاہت کا جواز نہ ہونے اور "ناٹ مائی کنگ" یعنی چارلز میرے بادشاہ نہیں کا نعرہ لگا رہے تھے۔  برطانوی عوام کی بڑی تعداد نے گذشتہ روز سڑکوں کا رخ کیا اور اعلان کیا کہ سلطنتی نظام، ایک غیرجمہوری اور نسل پرست سسٹم ہے جسے عوام کی تائید حاصل نہیں ہے۔ لندن کے ٹریفلگر اسکوائر پر موجود مظاہرین نے یہ بھی کہا کہ سلطنت کے نام سے بس، غلامی، قتل عام اور نسل پرستی کے دور کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ 

مظاہرین کا کہنا تھا کہ کیوں تاجپوشی کے اخراجات برطانوی شہریوں کی جیب سے لئے جا رہے ہیں جبکہ اس ملک کی اکثریت اب سلطنتی خاندان کی حرکتوں سے عاجز آچکی ہے۔ اخلاقی اور مالی بدعنوانی اور رسوائی، بدکرداری، طلاق کے متعدد کیسز اب خاندان سلطنت برطانیہ کے روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ ادھر اس خاندان کی شادی و غیرہ کی تقریبات، تاج پوشیوں اور تدفین کی شاہانہ رسومات نے بری طرح عام بجٹ پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ اسکائی نیوز کے اندازوں کے مطابق، سابق ملکہ الیزبیتھ کے بڑے بیٹے چارلز سوم کی تاجپوشی کی رسومات پر پچیس کروڑ پاؤنڈ یعنی تین سو چودہ ملین ڈالر خرچ کئے جا چکے ہیں ۔  یہ ایسے حال میں ہے کہ لندن کی حکومت عوام کو کفایت شعاری اور اخراجات میں کمی کی تلقین کر رہی اور اشیائے خورد و نوش اور توانائی کے شعبوں کی بڑھتی مہنگائی کا بوجھ بھی عام شہریوں پر ہی ڈال رہی ہے۔

اس درمیان برسر اقتدار کنزرویٹیو پارٹی کے سینیئر رکن نے ایک بیان جاری کرکے شہریوں کو اور بھی مشتعل کردیا ہے۔ کنزرویٹیو پارٹی کے نائب سربراہ لی اینڈرسن نے بادشاہت کے خلاف عوامی مظاہروں کے شرکا کی توہین کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرے بادشاہ نہیں ہیں کا کیا مطلب ہے؟ اگر آپ بادشاہی نظام سے چلنے والے ملک کے مخالف ہیں تو اس کی راہ حل یہ نہیں کہ اپنے حماقت آمیز نعرے دوہراتے ہوئے مظاہرہ کریں ۔ بہتر راہ حل یہ ہے کہ آپ اس ملک سے چلے جائیں ۔ 

کنزرویٹیو پارٹی کے اس سینیئر رکن کا یہ بیان اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ لندن کی حکومت کی بنیاد غیرجمہوری بنیادوں پر رکھی گئی ہے جہاں مخالف رائے کو برداشت نہیں کیا جاتا۔

قابل ذکر ہے کہ تازہ پولنگ کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ اٹھاون فیصد برطانوی شہری موجودہ بادشاہ کے مخالف ہیں جبکہ اکیاون فیصد کا کہنا ہے کہ سلطنتی نظام کو مکمل طور پر منسوخ ہوجانا چاہئے۔ برطانوی عوام کا کہنا ہے کہ ملک کے اعلی عہدے داروں کا انتخاب عوام کی براہ راست ووٹنگ سے ہونا چاہئے۔

ٹیگس