کیا اسکولی بسوں سے سعودی عرب پر میزائل فائر ہوتے ہیں؟؟؟؟ + مقالہ
ہمارے لئے اور ہم جیسے بہت سے لوگوں کے لئے یہ سمجھ پانا سخت ہو رہا ہے کہ وہ کون سے معیار ہیں جنہیں سعودی عرب اور امارات کے فوجی اتحاد کے ترجمان اپنے پیشرفتہ جنگی طیاروں کے حملوں میں بے گناہ یمنی شہریوں کے قتل عام کا دفاع کرنے کے لئے اختیار کرتے ہیں۔
کیا ان کے یہ حملے عالمی قوانین اور انسانی معیاروں کے دائرے میں آتے ہیں؟
سعودی عرب کے فوجی اتحاد کے ترجمان جنرل ترکی المالکی نے گزشتہ روز ایک بیان دیا کہ اتحادی جنگی طیاروں نے جو حملہ کیا اور جس میں صعدہ میں بچوں کے لے جانے والی بس نشانہ بنی اور جس کے نتیجے میںی 43 معصوم موت کی آغوش میں سو گئے اور 63 افراد زخمی ہوئے، وہ قانونی فوجی کاروائی تھی۔
ترجمان نے دعوی کیا کہ یہ حملہ ان افراد کو نشانہ بنا کر کیا گیا جنہوں نے جازان پر بیلیسٹک میزائلوں سے حملے کا منصوبہ بنایا اور اسے انجام دیا۔ سعودی عرب کی بمباری عالمی قوانین کے دائرے میں تھی۔
اس قتل عام سے ابھی کچھ ہی دن پہلے الحدیدہ شہر پر سعودی اتحاد نے زمینی، فضائی اور سمندری حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 55 عام شہری جاں بحق او 170 زخمی ہوگئے تھے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ عام شہریوں کو قتل کرنا کسی غلطی کا نتیجہ نہیں بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
ہم جنرل المالکی سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا ان بچوں نے وہ بیلیسٹک میزائل فائر کئے تھے جو جازان شہر پر گرے تھے؟ کیا اسی بس سے فائر کئے گئے تھے جو انہیں نے گرمی کی چھٹیویاں گزارنے کے لئے کیمپ کی جانب لے جا رہی تھی؟ اگر ایسا تھا تو ہم جاہئیں گے کہ یہ تجربہ کار فوجی افسر ہمیں یہ سمجھائیں کہ ان بچوں نے یہ میزائل حملہ کیسے کر دیا؟ ہمیں کوئی ویڈیو کلپ دکھائیں جس میں یہ بچے میزائل فائر کر رہے ہوں؟ کیونکہ ان کا دعوی تو یہی ہے کہ سعودی اتحاد یمن کی زمین پر چلنے والی چینٹی پر بھی نظر رکھ سکتے ہیں!!!
عالمی ریڈ کراس سوسائٹی نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر یہ ساری اطلاعات شیئر کی ہیں۔ جس کے مطابق یہ بس بچوں کو لے جا رہی تھی۔ ادارے کا کہنا ہے کہ عالمی قانون یہ ہے کہ جنگ اور تنازع کے وقت عام شہریوں کی حفاظت کرنا سبھی فریق کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
سعودی اتحاد جنگ کے تقریبا چار سال کے دوران بارہا یہی کہتا رہا ہے کہ اس کے جنگی طیارے عام شہریوں کی حفاظت کے لئے سبھی قوانین اور اصول پر عمل کر رہے ہیں مگر صعدہ اور اس سے پہلے الحدیدہ میں اتحادیوں کے حملوں میں عام شہریوں کے قتل عام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دعوے چھوٹے ہیں اس لئے اسپتالوں، بازاروں، اسکولوں اور مجالس ترحیم پر اتحادیوں کی بمباری کی فہرست طولانی ہے۔
یہ قتل عام واضح جنگی جرائم ہیں جو ان طیاروں کے ذریعے انجام دیئے جا رہے یں جو امریکی ساخت ہیں اور امریکا پوری دنیا میں انسانی حقوق کا دم بھرتا نہیں تھکتا جبکہ ساتھ ہی ساتھ بے گناہوں کے قتل عام میں براہ راست یا بالواسطہ شریک ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عربوں کے درمیان امریکا کو اپنی ان حرکتوں پر تالیاں بجانے والے بھی مل جاتے ہیں۔
ہم آخر میں اپنی یہ بات پھر سے دہراتے ہیں کہ یمن کی جنگ میں فوجی راستے سے کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی اور بے گناہوں کے قتل عام پر دنیا کی یہ خاموشی بھی ضروری نہیں ہے کہ اسی طرح جاری رہے۔ ایک ہی راستہ ہے کہ سعودی اتحاد فوری پسپائی اختیار کرے۔
بشکریہ
رای الیوم