ایٹمی مسئلے کے علاوہ کسی معاملے میں امریکا سے کوئی بات نہیں کی جائے گی
Sep ۱۱, ۲۰۱۵ ۲۳:۳۳ Asia/Tehran
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بعض جگہوں سے دراندازی کی امریکا کی فریب کارانہ کوششوں کے سلسلے میں خبردار کرتے ہوئے مستحکم اور مزاحتمی معیشت، علم و سائنس کے روز افزوں فروغ اور عوام اور بالخصوص نوجوانوں میں انقلابی جوش و جذبے کی تقویت و حفاظت کو شیطان بزرگ کی دشمنی کے مقتدرانہ مقابلے کے تین اہم عناصر سے تعبیر کیا۔
بدھ کی صبح مختلف عوامی طبقات سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے آئندہ پارلیمانی انتخابات کے بارے میں بعض نکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام کے ہر ووٹ کی طرح انتخابات کا نتیجہ بھی حق الناس ہے اور عوام کے اس حق کا تمام توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دفاع کیا جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہ ذی القعدہ کے بابرکت ایام اور ان گراں قدر مواقع سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ہجری شمسی کیلنڈر کے چھٹے مہینے شہریور کو بھی بڑے اہم واقعات اور یادوں کا حامل مہینہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: "اس مہینے میں 17 شہریور 1357 ( مطابق 8 ستمبر 1978) کو پہلوی حکومت کے ہاتھوں بے گناہ عوام کے قتل عام، 8 شہریور 1360 ہجری شمسی ( مطابق 30 اگست 1981) کو ملک کے صدر اور وزیر اعظم کی شہادت، اسی مہینے میں شہید آیت اللہ قدوسی اور شہید آیت اللہ مدنی کی ٹارگٹ کلنگ اور 31 شہریور 1359 ہجری شمسی مطابق ( 22 ستمبر 1980) کو ایران پر صدام کے حملے سمیت تمام واقعات میں امریکا کا براہ راست یا بالواسطہ کردار صاف نظر آتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملک میں عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کی سطح پر ان قابل غور واقعات کے تدریجی طور پر فراموش کر دئے جانے پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس سلسلے میں ذمہ دار اداروں کی ناقص کارکردگی پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ اس طرح کے عبرت آموز واقعات قوم کی تاریخی یادداشت میں ہرگز کم رنگ نہ ہونے پائیں، کیونکہ اگر نوجوان نسل اس قسم کے تاریخی و ملی واقعات کی شناخت اور ان کے اسباب و علل کی شناخت سے قاصر رہی تو راہ حل اور ملک کے مستقبل کی شناخت میں بھی اس سے غلطیاں ہوں گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے پہلوی حکومت کے دور میں امریکیوں کے مطلق تسلط کی بعض علامتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ طاغوتی حکومت کے تمام کلیدی عہدیداران منجملہ خود شاہ امریکا کے تابع فرمان ہوتے تھے اور امریکی حکام اپنے گماشتہ افراد کی مدد سے ایرانی قوم پر فرعون کی طرح حکومت کرتے تھے، لیکن امام خمینی نے زمانے کے موسی کا کردار ادا کرتے ہوئے قوم کی مدد سے اس قدیمی سرزمین سے اس بساط کو سمیٹ دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں امریکیوں کے ناجائز مفادات کے خاتمے کو اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران سے ان کی دشمنی اور کینہ پروری کی اصلی وجہ قرار دیا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکا کو 'شیطان بزرگ' کا لقب دینے کے امام خمینی کے تاریخی اقدام کو انتہائی پرمغز اقدام قرار دیا اور فرمایا کہ ساری دنیا کے شیطانوں کا سربراہ ابلیس ہے، لیکن ابلیس کا کام صرف فریب دینا اور بہکانا ہے جبکہ امریکا بہکاتا بھی ہے، قتل عام بھی کرتا ہے، پابندیاں بھی عائد کرتا ہے، فریب دہی اور ریاکاری بھی کرتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ابلیس سے بھی زیادہ کراہیت انگیز امریکی چہرے کو نجات کے فرشتے کے طور پر پیش کرنے کی بعض لوگوں کی کوششوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دین اور انقلابی ہونا در کنار، ملکی مفادات سے وفاداری اور عقلانیت کہاں جائے گی؟ کون سی عقل اور کون سا ضمیر یہ اجازت دیتا ہے کہ ہم امریکا جیسے جرائم پیشہ کے چہرے پر رنگ و روغن لگاکر اسے دوست اور قابل اعتماد ظاہر کریں؟
قائد انقلاب اسلامی نے دراندازی اور غلبہ حاصل کرنے کی امریکی روشوں اور پالیسیوں کے بارے میں انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ جس شیطان کو قوم نے دروازے سے نکال باہر کیا وہ اب کھڑکی سے واپس آنے کی کوشش میں ہے اور ہمیں اسے یہ موقع نہیں دینا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ملت ایران سے امریکا کی دشمنی کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ آپ نے اس کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان اور اس اتفاق رائے کے بعد جس کا انجام ایران اور امریکا میں ہنوز واضح نہیں ہے، کانگریس میں امریکی ایران کے سامنے مشکلات کھڑی کرنے والی قرارداد تیار کرنے اور سازش رچنے میں مصروف ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکیوں کی سازش ختم ہونے کا واحد راستہ ایرانیوں کے قومی اقتدار اعلی کا استحکام ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں اپنے آپ کو اس طرح مضبوط بنانا ہوگا کہ شیطان بزرگ اپنے معاندانہ اقدامات کے نتائج کی جانب سے مایوس ہو جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قومی اقتدار اعلی کی ضمانت کی تشریح کرتے ہوئے تین نکات مستحکم و مزاحمتی معیشت، روز افزوں اور پیشرفتہ علم اور عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کے اندر انقلابی جذبے کی تقویت و حفاظت کی ضرورت پر زور دیا۔
پہلے نکتے کے تعلق سے آپ نے فرمایا کہ مستحکم اور مزاحمتی معیشت کو مزاحمتی معیشت سے متعلق پالیسیوں کے فوری اور من و عن نفاذ سے حاصل کیا جا سکتا ہے، البتہ حکومت اس سلسلے میں کچھ کام کر رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سائنسی پیشرفت اور علمی ترقی کی موجودہ رفتار کو قائم رکھنے پر بھی زور دیا اور فرمایا کہ عوام کے اندر استقامت اور انقلابی جذبے کی تقویت اندرونی استحکام کا بہترین راستہ ہے اور حکام کو چاہئے کہ انقلابی نوجوانوں کی قدر کریں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نوجوانوں میں لاابالی پن اور غیرذمہ دارانہ سوچ کی ترویج کی دشمن کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ نوجوانوں کے انقلابی جوش و جذبے کو مار دینا چاہتے ہیں اور ملک کے اندر بھی کچھ لوگ 'انتہا پسند' جیسی اصطلاحات استعمال کرکے انقلابی و دیندار نوجوانوں پر حملہ کرتے ہیں جو بہت غلط کام ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے روز افزوں استحکام اور دشمنوں کو مایوس کر دینے کے طریقوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اس وقت امریکی آپس میں ذمہ داریاں تقسیم کرکے ایران کے ساتھ دہرا برتاؤ کر رہے ہیں، کچھ حکام خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں اور اور بعض ایران کے خلاف قرارداد تیار کرنے میں مصروف ہیں۔
ایران سے مذاکرات کی امریکیوں کی کوششوں کو قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے اندر اثر و نفوذ قائم کرنے اور ایران پر وائٹ ہاؤس کی مرضی مسلط کرنے کی کوششوں سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ ہم نے صرف ایٹمی معاملے میں اور وہ بھی اعلان شدہ وجوہات کی بنا پر مذاکرات کی اجازت دی اور بحمد اللہ اس میدان میں ہمارے مذاکرات کاروں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن دوسرے مسائل میں ہم امریکا سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: "البتہ شیطان بزرگ کے علاوہ ہم تمام ملکوں کے ساتھ حکومتی، عوامی اور دینی سطح پر مذاکرات اور مفاہمت کے قائل ہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی نے صیہونی حکومت کو جعلی حکومت قرار دیتے ہوئے کہا کہ بعض صیہونیوں نے کہا ہے کہ ایٹمی مذاکرات کے نتائج کے پیش نظر ہم آئندہ پچیس سال کے لئے ایران کے خطرے کی طرف سے آسودہ خاطر ہو گئے ہیں، لیکن ہم انھیں بتانا چاہتے ہیں کہ پہلی بات یہ ہے کہ آئندہ پچیس سال کا عرصہ آپ کو دیکھنا نصیب نہیں ہوگا اور فضل پروردگار سے علاقے میں صیہونی حکومت نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ اس مدت کے دوران بھی اسلامی مجاہدانہ جذبات، صیہونیوں کو چین کی سانس نہیں لینے دیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں ہجری شمسی سال 1394 کے بارہویں مہینے اسفند (مطابق فروری مارچ 2016) میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں انتہائی اہم نکات کا ذکر کیا۔ آپ نے ان افراد پر شدید تنقید کی جو ڈیڑھ سال پہلے سے ہی ملک میں انتخابی ماحول پیدا کرنے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے، کیونکہ جب انتخابی تصادم اور مقابلہ آرائی کا ماحول ہر کام کی بنیاد بن جائے تو اصلی مسائل حاشئے پر چلے جاتے ہیں اور یہ ملک اور عوام کے حق میں ہرگز نہیں، تاہم اب بعض انتخابی نکات کو بیان کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ انتخابات کا مسئلہ بہت اہم ہے اور انتخابات عوام کی شراکت و اعتماد کا مظہر اور دینی جمہوریت کا حقیقی آئینہ ہیں۔
آپ نے مزید فرمایا کہ اسی عدیم المثال اہمیت کی وجہ سے ایران میں گزشتہ سینتیس سال کے دوران انتخابات سخت سے سخت حالات میں، کسی بھی وجہ سے، ایک دن کے لئے بھی ملتوی نہیں کئے گئے، البتہ بعض مواقع پر کچھ سیاست بازوں نے اس طرح کی کوششیں ضرور کیں لیکن ان کا راستہ روک دیا گیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایران میں انتخابات کے خلاف امریکا اور اس کے آلہ کاروں کے بلا وقفہ منفی پروپیگنڈوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے طاغوتی دور میں ہونے والے نمائشی انتخابات پر ایک بار بھی اعتراض نہیں کیا اور آج بھی علاقے کی موروثی ڈکٹیٹر حکومتوں کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کرتے، مگر ایران کے خلاف جہاں درجنوں عوامی اور شفاف انتخابات ہو چکے ہیں، مسلسل زہریلا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گزشتہ 37 سال کے دوران منعقد ہونے والے تمام انتخابات کی شفافیت کو یقینی قرار دیا اور کہا کہ بین الاقوامی معیاروں کے اعتبار سے بھی ایران میں بہترین اور انتہائی شفاف انتخابات ہوتے ہیں، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ملک کے اندر کچھ لوگ انتہائی غلط رویہ اپناتے ہوئے انتخابات کی شفافیت پر سوالہ نشان لگاتے ہیں، یہاں تک کہ انتخابات سے پہلے ہی دھاندلی اور بد عنوانی کے الزام لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق گزشتہ تین عشروں کے دوران تمام انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت اسلامی نظام پر عوام کے گہرے اعتماد کا شاخسانہ ہے۔ آپ نے سوال کیا کہ اس کے باوجود بھی کیوں بعض لوگ جھوٹی تشویش ظاہر کرکے اور بے بنیاد فکر مندی کا اظہار کرکے اس اعتماد کو نقصان پہچانے کی کوشش کرتے ہیں؟
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ظاہر ہے کہ انتخابات کی صحتمندی و شفافیت کے لئے بڑی شدید نگرانی کی جاتی ہے اور کسی کو بھی اس طرح کی کسی حرکت کی اجازت نہیں دی جاتی تو پھر ان باتوں کا بار بار اعادہ کس مقصد کے تحت ہے؟
انتخابات کی شفافیت کے سلسلے میں "نگراں کونسل" کے موثر قانونی کردار کا حوالہ دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ "نگراں کونسل" کے وجود کی ایک بڑی برکت یہ ہے کہ یہ ادارہ ہر غلطی اور بھول پر نظر رکھتا ہے، البتہ دوسرے ادارے بھی اس سلسلے میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے انقلاب کے بعد انتخابات کی شفافیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بعض انتخابات میں کچھ اشکالات کی رپورٹیں ملیں، جن کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا گیا تو معلوم ہوا کہ حقیقت وہ نہیں تھی جو شکایتوں میں ذکر کی گئی تھی، البتہ گوشہ و کنار میں کبھی کوئی خلاف ورزی بھی نظر آئی مگر کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ اس سے انتخابات کے نتائج متاثر ہوئے ہوں۔
قائد انقلاب اسلامی نے عوام کے ووٹوں کو حقیقی معنی میں حق الناس سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ ہر ایرانی شہری کے ووٹ کی حفاظت واجب شرعی ہے اور کسی کو اس امانت میں خیانت کا حق نہیں ہے، اسی طرح عوامی ووٹوں کا نتیجہ بھی حق الناس کا مظہر ہے اور سب کو اس کی حفاظت اور دفاع کے لئے بھرپور کوشش کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انتخابات میں عوام کی پرجوش شرکت کو ملک کی حفاظت کی ضمانت قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ عوام کے اتحاد و یکجہتی کی مدد سے یقینی طور پر نصرت الہیہ کی حقدار قرار پائے گی اور تمام دشمنوں کو مغلوب کر لیگی۔