Jan ۱۷, ۲۰۱۶ ۱۵:۱۱ Asia/Tehran
  • مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کا آغاز

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کمیشن کی سربراہ فیڈریکا موگرینی کا مشترکہ اعلامیہ ہفتے کی رات جاری ہوا۔

اس اعلامئے کے مطابق ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق تمام مالی، اقتصادی اور چند طرفہ پابندیاں مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مطابق سولہ جنوری سے اٹھالی گئی ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اتوار کے دن ایران کا آئندہ برس سنہ تیرہ سو پچانوے ہجری شمسی کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے حوالے سے کسی کو بھی ناکامی نہیں ہوئی ہے نہ ایران کے اندر کسی کو شکست ہوئی اور نہ ہی ہمارے ساتھ ایٹمی مذاکرات انجام دینے والوں کو شکست ہوئی ہے۔

صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے حوالے سے سب لوگ خوش ہیں کہا کہ صیہونیوں، جنگ کی آگ بھڑکانے والوں، ملت اسلامیہ کے درمیان تفرقہ پھیلانے والوں اور امریکہ کے انتہا پسندوں کے سوا سب خوش ہیں۔

صدر مملکت نے مزید کہا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے باعث ہمارے لئے ترقی و پیشرفت، دنیا کے ساتھ اشتراک عمل اور اقدامات میں ہم آہنگی کا راستہ کھلے گا۔

ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان تقریبا دو برسوں تک انتہائی کٹھن اور نشیب و فراز والے مذاکرات کے بعد چودہ جولائی سنہ دو ہزار پندرہ کو ویانا میں ایک ایٹمی معاہدہ ہوا۔ جس کو مشترکہ جامع ایکشن پلان کے نام سے شہرت ملی ہے اور اس طرح اس تاریخی معاہدے تک رسائی کے لئے ایک بڑا قدم اٹھایا گیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران پر بے بنیاد دعووں کے ساتھ اقوام متحدہ کے منشور کی ساتویں شق اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے ظالمانہ پابندیاں عائد کی گئیں۔

ایران کی ایٹمی مذاکراتی ٹیم نے انتہائی کٹھن اور پیچیدہ مذاکرات کے دوران ایرانی قوم کے حقوق کا ڈٹ کر دفاع کیا اور دنیا والوں پر ثابت کر دیا کہ ایران اشتراک عمل اور تعمیری مذاکرات کرنے والا ملک ہے۔

اب ویانا اعلامیہ جاری ہونے اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی ای اے آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا آمانو کی جانب سے رپورٹیں پیش کئے جانے کے بعد مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کے تمام ابتدائی مراحل طے ہو چکے ہیں۔

یوکیا آمانو کی رپورٹ اور ویانا میں جاری ہونے والے مشترکہ اعلامئے سے اس بات پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی ہے کہ ایران نے اعتماد سازی سے متعلق اپنے تمام وعدوں پر عمل کیا ہے۔اور اب فریق مقابل کی باری ہے کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے تعلق سے لگائی جانے والی پابندیوں کے خاتمے سمیت اپنے وعدوں پر عمل کرے۔

البتہ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے والوں کی جانب سے وعدہ خلافی اور بہانہ تراشی سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔

مشترکہ جامع ایکشن پلان کے اثرات اور مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کے بعد کے زمانے کے اثرات کا جائزہ  بین الاقوامی، علاقائی اور ملکی سطح پر لیا جا سکتا ہے۔

حالیہ برسوں کے دوران ایٹمی پروگرام کے بارے میں منفی قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں لیکن اب ماحول بدل چکا ہے۔ اس معاہدے کا جس زاویۂ نگاہ سے بھی جائزہ لیا جائے یہ ایک اہم اور اسٹریٹیجک معاہدہ ہے۔

مشترکہ جامع ایکشن پلان در حقیقت ایک نیا موقع ہے۔ البتہ یہ بھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ تمام مسائل حل ہو چکے ہیں۔

اس طرح کے معاہدوں میں بہرحال خامیاں اور خوبیاں ایک ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ اب اسلامی جمہوریہ ایران ایک علمی اور تکنیکی منصوبے کی بنیاد پر مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کے پہلے آٹھ برسوں کے دوران بعض پابندیوں کو تسلیم کرنے کے باوجود صنعتی اور کمرشل سطح پر یورینیئم کی افزودگی کے ساتھ ساتھ ایک جدید اور ترقی یافتہ پروگرام کے ساتھ سائنسی ایٹمی بنیادوں کا تحفظ کرے گا اور مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کے بعد کے زمانے میں اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لئے فائدہ اٹھائے گا۔ یہ ایسے قابل توجہ ثمرات ہیں کہ وزیر خارجہ کے مطابق بہت سے ممالک جن کی آرزو تو کر سکتے ہیں لیکن ان کو حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔

یہ سفارتی کامیابی نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔ اس معاہدے سے دنیا والوں پر یہ ثابت ہوگیا کہ ایران سفارت کاری کے ذریعے بڑے بڑے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان مذاکرات سے خطے میں سیاسی مذاکرات اور باہمی ہم آہنگی کا راستہ ہموار ہوا۔

ایٹمی معاہدے سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ ایران اپنی ایٹمی سرگرمیوں کے پرامن ہونے کے یقین کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آیا تاکہ دنیا والوں پر ثابت ہوجائے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو خطرہ ظاہر کرنے سے متعلق پروپیگنڈے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ٹیگس