May ۲۰, ۲۰۱۷ ۱۹:۱۷ Asia/Tehran

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں۔ یہ ان کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔

ٹرمپ نے جمعے کے دن سعودی عرب روانہ ہونے سے قبل ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا تاکہ ریاض میں اپنے مذاکرات شروع کرنے سے پہلے یہ ظاہر کردیں کہ ان کے سفر کا مقصد ایرانوفوبیا کی پالیسی کو جاری رکھنا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب جمعرات کے دن وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ ٹرمپ اپنے دورۂ سعودی عرب میں عرب نیٹو تشکیل دیں گے۔ ٹرمپ کا اس خطے کا دورہ کرنے کا ایک اہم مقصد ایرانوفوبیا ہے۔ باراک اوباما کی حکومت بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔ اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو ہم کو پتہ چلے گا کہ حتی باراک اوباما سے پہلے کے امریکی سربراہوں کی پالیسیاں بھی ایران کے ساتھ دشمنی پر ہی مبنی تھیں۔ امریکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اپنے بے بنیاد دعووں کی ناکامی کے بعد دو اہداف حاصل کرنےکی کوشش کر رہا ہے۔ پہلا ہدف خطے میں ایرانوفوبیا کو ہوا دینا اور دوسرا علاقائی اور عالمی سطح پر ایران کے کردار کی مخالفت کرنا ہے۔ ایران کے علاقائی کردار کا ربط دہشت گردی کی حمایت کے ساتھ جوڑنا درحقیقت ایران کے بارے میں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی مشترکہ سوچ کا نتیجہ ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب خطے کو بدامنی کا شکار بنانا، القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانا، دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنا، عراق اور شام میں جنگیں شروع کرانا اور یمن کو تقسیم کرانے کے لئے اس ملک پر سعودی عرب سے حملہ کروانا مشرق وسطی سے متعلق امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ منصوبے کا حصہ ہے۔ البتہ ٹرمپ کے عہدۂ صدارت میں سعودی عرب کو زیادہ کردار دیئے جانے کی وجہ سے یہ چیز زیادہ نمایاں نظر آرہی ہے کہ امریکہ نے علاقائی اور عالمی حالات سے اقتصادی اور تجارتی فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے اقدامات کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔

ٹرمپ ہر چیز کو تجارت اور اقتصادی فائدے کے تناظر میں ہی دیکھتے ہیں اور اپنے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر بھی وہ اس ملک کے ہاتھ ایک سو ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کرنےکے معاہدے پر دستخط کرنے والے ہیں۔ ان امور سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ دورہ اس اعتبار سے ٹرمپ کے لئے ایک اچھا آغاز ہوگا۔  لیکن یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ یہ پالیسی سعودی عرب کے لئے سود مند ثابت ہوگی یا سعودی عرب کی جارحیتوں کی حمایت کا سبب بنے گی۔ ٹرمپ کو اس وقت ملک کے اندر بھی اور اپنی خارجہ پالیسی کے سلسلے میں بھی بہت سی مشکلات کا سامنا ہے اور سیکورٹی مسائل کی وجہ سے حتی ان کے برطرف کئے جانے کی بات بھی کی گئی ہے۔ ان حالات میں سوال یہ ہے کہ کیا وہ سعودی عرب کے حکام کے ساتھ اپنے وعدوں کو نبھانے کی پوزیشن میں ہوں گے اور سعودی عرب کے سپنوں کو حقیقت کا روپ دے سکیں گے؟ یہ ایسا مسئلہ ہے جو بحث طلب ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کی سیاسی، سیکورٹی اور اقتصادی صورتحال بہت ہی متزلزل ہے اور خطے کے حالات کے بارے میں سو فیصد صحیح کوئی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی ہے خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ ٹرمپ نے مختلف مسائل کے بارے میں متضاد مواقف اپنا رکھے ہیں۔ البتہ خطے کے مسائل اور ٹرمپ کے دورۂ مشرق وسطی کے اہداف کے بارے میں مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے خصوصا حالیہ برسوں کے دوران علاقے میں ایک بہت ہی پیچیدہ کھیل شروع کر رکھا ہے اور جب تک یہ صورتحال جاری رہے گی اس وقت تک امریکہ کے زاویۂ نگاہ سے ایران امریکہ کی توسیع پسندی کے مقابلے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی بنا پر خطرہ شمار ہوتا رہے گا۔ اس لئے ٹرمپ کے بیانات اور ان کی جانب سے ایران پر دہشت گردی کا الزام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بہرحال یہ بات مسلّمہ ہے کہ امریکہ کے نئے صدر کو خطے کے امور میں مداخلت میں بہت زیادہ دلچسپی ہے لیکن  عالمی سطح پر ان کے نامعقول مواقف پر کی جانے والی تنقیدوں کے پیش نظر یہ بات یقینی ہے کہ وہ سعودی عرب کے لئے وسیع پیمانے پر حمایت حاصل کرنے اور ایران کے خلاف اجماع یا اتفاق رائے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہوں گے۔

ٹیگس