Nov ۲۴, ۲۰۱۷ ۱۹:۳۳ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدہ، دوطرفہ ہے؛ یکطرفہ نہیں: آئی اے ای اے میں ایران کے نمائندے

جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے رضا نجفی نے کہا ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدہ یکطرفہ نہیں ہے اور اس معاہدے کی پابندی اس بات پر منحصر ہے کہ دیگر فریق کس حد تک معاہدے کی پابندی کر رہے ہیں۔

آئی اے ای اے میں ایران کے نمائندے نے جمعرات کی شام کو ویانا میں بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں خاص طور پر امریکہ کی جانب سے اس سلسلے میں انجام پانے والی خلاف ورزیوں کو ناقابل قبول قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت ایٹمی معاہدے کے متن اور روح، خاص طور پر اس معاہدے کی شقوں 26، 28 اور 29 کی خلاف ورزی کررہی ہے اور ایٹمی معاہدے سے متعلق ایران کے مفادات کو محدود کرکے اس معاہدے کے خلاف منفی رویہ اپنائے ہوئے ہے۔

جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے ڈائرکٹر جنرل یوکیا آمانو نے بھی بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں اپنی نویں رپورٹ پڑھ کر سنائی اور ایک بار پھر ایٹمی معاہدے پر ایران کی جانب سے مکمل عملدرآمد اور اس کے پابند ہونے پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ یہ رپورٹ  تیرہ نومبر 2017 کو اس کے بعد شائع ہوئی تھی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اکتوبر کے مہینے میں ایران کے ایٹمی معاہدے پر ایران کے پابند نہ ہونے کی توثیق کی تھی۔ واضح رہے کہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب سے مسلسل نو رپورٹس میں ایران کے اپنے وعدوں پر عمل کرنے کی تصدیق کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی توثیق نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔امریکہ ایٹمی معاہدے کے ایک فریق کی حیثیت سے اس بین الاقوامی معاہدے کا مخالف ہے اور وہ مختلف روشوں سے اس کوشش میں ہے ایٹمی معاہدے کو بیکار اورغیر مفید قرار دے دے۔ 

جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی کی جانب سے، ایران کے توسط سے ایٹمی معاہدے کی مکمل پابندی کئے جانے کے تعلق سے نو رپورٹوں کے منظرعام پر آنے کے باوجود امریکہ بین الاقوامی اداروں پر دباؤ ڈال رہا ہے - امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایسی حالت میں ایران کے خلاف تخریبی پالیسیاں اختیار کی جا رہی ہیں کہ تمام بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کا احترام کرنا تمام حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔امریکی رویوں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ ملک اپنی طاقت کے بل بوتے پر، ایٹمی معاہدے کے خلاف زور آزمائی کر رہا ہے اور اسی سلسلے میں تہران یونیورسٹی کے پروفیسر اور بین الاقوامی مسائل کے ماہر ابراہیم متقی کہتے ہیں کہ ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں یورپ کا نقطہ نگاہ ، بین الاقوامی حقوق اور قوانین پر مبنی ہے جبکہ امریکہ کا نقطہ نگاہ ، ایسی بین الاقوامی پالیسی کے دائرے میں ہے جو طاقت و اقتدار کے مظاہرے پر مبنی ہے۔ 

ایٹمی معاہدے کے تعلق سے امریکہ کے اسی نقطہ نظر کے تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ ایٹمی سمجھوتے کو ختم کرنے اور اس سے نکل جانے کی بات کر رہے ہیں اور خود کو ایٹمی معاہدے کا پابند نہیں سمجھ رہے ہیں۔ بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین کے تعلق سے امریکہ کا یہی متکبرانہ اور آمرانہ نظریہ اور رویہ، جہاں ان معاہدوں کے خراب ہونے کا باعث بنا ہے وہیں اس کی خلاف ورزیوں نے امریکہ کو ایک ناقابل اعتماد اور غیر ذمہ دار ملک بنادیا ہے۔ ایسے حالات میں ایٹمی معاہدے کے یورپی فریقوں سے امید ہے کہ وہ ایٹمی سمجھوتے پر عملدرآمد کے سلسلے میں امریکی رویہ نہیں اپنائیں گے کیوں کہ اس طرح کی ہم فکری کا نتیجہ یورپی ملکوں کے نقصان میں ہوگا کہ جو اعلان کردہ پالیسی میں بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں پر یقین رکھتے ہیں. یورپی ملکوں خاص طور پر فرانس کے صدر کی جانب سے ایران کے میزائل پروگرام کے سلسلے میں دیئے گئے بے بنیاد بیانات سے ایٹمی معاہدے کی پاسداری میں کوئی مدد نہیں ملے گی اور یہ رویہ یورپ کے مثالی رویے سے مطابقت نہیں رکھتا۔

اس لئے کہ یہ مسلمہ امر ہے کہ  اسلامی جمہوریہ ایران کے فوجی مراکز ایران کی قومی سلامتی کا جزء شمار ہوتے ہیں اور کسی کو بھی ان مراکز کا معائنہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی تناظر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے 21 نومبر کو فرانس کے صدر کے ساتھ ٹیلیفونی گفتگو میں کہا کہ ایران کے نقطہ نگاہ سے ایٹمی معاہدے پر صحیح اور بھرپور طورپر عملدرآمد ، عالمی سطح پر دیگر اہم معاہدوں اور امور میں تعاون کے لئے ایک اہم آزمائش ہے اس لئے ایٹمی معاہدے میں کچھ اضافہ کرنا یا حذف کرنا، اس معاہدے کے مکمل طور پر نابود ہوجانے کے مترادف ہوگا ۔ ایرانی صدر نے کہا کہ ایران مشرق وسطیٰ پر بالادستی نہیں چاہتا اور تمام پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے،انھوں نے کہا کہ فرانس مشرق وسطیٰ میں حقیقت پسندانہ اور غیرجانبدارانہ اپروچ اپنا کر نہایت مفید کردار اداکرسکتا ہے۔

 

     

ٹیگس