Sep ۱۱, ۲۰۱۹ ۱۸:۵۴ Asia/Tehran
  • نیتن یاہو کا پُرانا ڈرامہ اور آئی اے ای اے کی تازہ رپورٹ

ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی، آئی اے ای اے،  نے اپنی تازہ رپورٹ میں ایرانی اقدامات کو جامع ایٹمی معاہدہ کے دائرہ میں بتایا ہے غاصب لیکن اسرائیل کے وزیر اعظم نے ایک بار پھر دعویٰ  کیا ہے کہ ایران کی ایٹمی سرگرمیاں فوجی نوعیت کی ہیں اور یہ کہ ایران ایٹم بم بنانے کے درپے ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے غاصب اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامن نیتن یاہو کے پُرانے اور جھوٹے دعوے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ٹوئیٹر پیج پر لکھا ہے کہ ”در حقیقت جو ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں وہی جھوٹے چرواہے کی طرح ایران میں ایک تباہ شدہ ایٹمی سائٹ کا شور مچا رہے ہیں۔“ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم اور ٹیم ”بی“  بےگناہوں کے خون کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف جنگ کے درپے ہے۔

جب بھی ایٹمی معاملات سے متعلق ادارے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو پُرامن اور جامع ایٹمی معاہدہ کے دائرے میں قرار دیتے ہیں تو اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نیتن یاہو جھوٹے اور پُرانے دعووں کے ذریعہ ایران کے بارے میں اپنی ذاتی سوچ کا مظاہرہ کرکے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بن یامن نیتن یاہو نے، جامع ایٹمی معاہدہ سے امریکہ کی یک طرفہ علیٰحدگی میں جن کا اہم کردار رہا ہے،  اب تک دروغ گوئی اور جھوٹے دعووں کے ذریعہ عالمی برادری کو ایران مخالف بنانے کی بہت زیادہ کوشش کی ہے لیکن ہر بار ان کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔

سنہ 2003ع میں عراق پر امریکی حملہ کے تلخ اور تاریخی تجربہ سے تابت ہوتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم کے جھوٹ کے پُلندوں نے کیسے ہزاروں عراقیوں کو مختلف ہتھیاروں کی بھینٹ چڑھوا دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے سنہ 2002ع میں امریکی کانگریس میں صدام حکومت کے پاس وسیع تباہی والے ہتھیاروں کے وجود کا الزام لگا کر عراق پر حملہ  کے لئے امریکہ کو اُکسایا تھا۔ عراق پر امریکی حملہ اور وسیع تباہی والے ہتھیاروں کے جھوٹے الزام نے ہزاروں عراقیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا اور عراق کی بنیادی تنصیبات کی تباہی کے علاوہ عراقیوں کے لئے اس تباہ کن جنگ کے نتائج بھی بدستور قابل مشاہدہ ہیں۔

ان حالات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے وہائٹ ہاؤس میں داخلے سے نیتن یاہو کے ہاتھ ایک اور موقع لگ گیا لیکن ایران کے بارے میں ماضی کے منصوبوں پر عمل درآمد کے ناقابل تصور نتائج کی تشویش نے ٹیم ”بی“ اور ٹرمپ کو بند راستہ کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ یہی امر اسرائیلی وزیر اعظم  کے ذریعہ بےبنیاد اور جھوٹے الزامات کے سہارے علاقہ اور دنیا کی رائے عامہ کے سامنے ایران کی منفی تصویر پیش کرنے کا سبب بنا ہے جبکہ یہ اسرائیل ہی ہے جو مغربی ایشیا کے علاقہ میں ایٹمی ہتھیاروں کا مالک ہے۔ غاصب اسرائیلی حکومت کے پاس سینکڑوں ایٹمی وار ہیڈ ہیں اور وہ کسی بھی بین الاقوامی اور قانونی ادارہ کو جوابدہ نہیں ہے۔

اسی سلسلہ میں ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے ایک اور ٹوئیٹر پیغام کے ساتھ برطانوی اخبار ”سنڈے ٹائمز“  کے 5 اکتوبر سنہ 1986ع کے صفحۂ اول کی تصویر لگائی ہے جس میں اسرائیل کے فوجی ایٹمی پروگرام سے متعلق لکھا تھا کہ ”اسرائیل کا ایٹمی پلانٹ صحرائے نقب کی گہرائی میں بنایا گیا ہے اور وہاں خفیہ سرگرمیاں انجام دی جا رہی ہیں۔“

غاصب اسرائیلی حکومت امریکی مدد سے اپنی فوجی ایٹمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے ایٹمی ہتھیار مغربی ایشیا بلکہ پوری دنیا کے لئے سنگین خطرہ شمار ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ایران کے خلاف اسرائیلی وزیر اعظم کے دعوے بین الاقوامی اداروں اور قوانین کا مذاق اڑانے کےمترادف ہیں لیکن اسلامی جمہوریۂ ایران نے بین الاقوامی قوانین کا احترام اور جامع ایٹمی معاہدہ پر دستخط کرکے ثابت کردیا کہ وہ ایٹمی سرگرمیوں سے فوجی استفادہ کرنے کا خواہاں نہیں ہے اور آئی اے ای اے کی تازہ رپورٹ نے جامع ایٹمی معاہدہ پر ایران کے پابند رہنے اور اس کی ایٹمی سرگرمیوں کے پُرامن ہونے پر مُہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔

ٹیگس