Sep ۱۴, ۲۰۱۹ ۱۹:۵۲ Asia/Tehran
  • ایرانی اثاثوں پر کینیڈا کی ڈاکا زنی

کینیڈا کی حکومت نے ایک دشمنانہ اور خلاف معمول اقدام میں منجمد ایرانی اموال اور اثاثوں میں سے دسیوں لاکھ ڈالر کی فروخت کا حکم جاری کردیا ہے۔ اس غیر قانونی اقدام کا مقصد نام نہاد دہشت گردی کا شکار افراد کو رقم فراہم کرنا بتایا گیا ہے۔

بظاہر حکومت کینیڈا کا یہ برخلافِ معمول اقدام سنہ 2012ع میں پاس ہونے والے اس قانون کی بنیاد پر کیا گیا ہے جس کی رُو سے نام نہاد دہشت گردی کا شکار ہونے والے کینیڈا کے شہری کینیڈا میں ایران کے خلاف شکایت اور دعویٰ کرکے حکومت ایران سے متعلق اموال اور اثاثوں کو ضبط اور فروخت کرکے تاوان لے سکتے ہیں۔

بین الاقوامی مسائل کے ماہر اور یونیورسٹی پروفیسر علی بیگ دلی اس بارے میں کہتے ہیں کہ ”حکومت امریکہ نے اس عمل میں سنہ 1996ع سے شدت پیدا کی یعنی جب امریکی کانگریس نے حکومتوں کے تحفظ کے ایک قانون میں ترمیم کرکے دہشت گردانہ کارروائیوں سے متاثرہ امریکی شہریوں کو امریکی عدالتوں میں دہشت گردی کی حامی حکومتوں کی فہرست میں شامل ممالک کے خلاف دعویٰ  کرکے تاوان کا مطالبہ کرنے کی اجازت دے دی تھی۔“

30 مئی سنہ 2003ع کو اسی قانون کی بنیاد پر اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف ایک فیصلہ سنایا گیا تھا جس کی نہ تو کوئی قانونی بنیاد تھی اور نہ ہی حقیقی۔ اس فیصلہ میں واشنگٹن ڈی سی کی عدالت نے سنہ 1983ع میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں امریکی فوج کے مرکز پر ہونے والے حملہ میں ہلاک شدہ 241 فوجیوں کے اہل خانہ کی  بےبنیاد شکایت پر اسلامی جمہوریۂ ایران کو حملہ کا ذمہ دار قرار دیا۔

اسی نام نہاد عدالتی طریقے پر کینیڈا میں بھی عمل کیا گیا ہے۔ چند سال پہلے بھی کینیڈا کی ایک عدالت نے کینیڈا میں ایرانی اموال و اثاثوں میں سے سنہ 1983 سے 2002 تک ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کو ایک کروڑ تیس لاکھ ڈالر نکالنے کا حکم جاری کیا تھا۔

بےبنیاد الزام کے تحت کینیڈا کے تازہ اقدام میں ایران سے متعلق اموال و اثاثوں میں سے اوٹاوا یونیورسٹی کے نزدیک واقع ایران کے ثقافتی مرکز کی عمارت بھی شامل ہے جس کی قیمت 2 کروڑ 65 لاکھ ڈالر ہے۔ ٹورانٹو میں ایران کے مرکز مطالعات کی عمارت کے بارے میں بھی اسی طرح کا حکم جاری ہوا ہے اور اس عمارت کی قیمت 18 لاکھ  ڈالر ہے۔ علاوہ ازیں، یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ 26 لاکھ ڈالر کینیڈا میں ایرانی بینک کھاتوں سے نکالے گئے ہیں۔

امریکہ کے سابقہ اقدامات کے تسلسل میں کینیڈا کا تازہ اقدام در حقیقت تازہ صورت میں ایرانی عوام کے اموال کی سلسلہ وار ڈاکا زنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی دشمنی صرف ایٹمی معاملہ اور جامع ایٹمی معاہدے تک محدود نہیں ہے۔ دہشت گردی کی حمایت کے بارے میں ایران کے خلاف امریکہ کی الزام تراشی بھی سفید جھوٹ ہے جو سیاسی مفادات کے حصول کے امریکی حکام کے حربہ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ایران کے اموال و اثاثوں کی چوری اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور ساتھ ساتھ بین الاقوامی اصول و قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور بین الاقوامی ڈاکا زنی کی مثال ہے جو بدستور کینیڈا کی مدد سے جاری ہے۔ ظاہرسی بات ہے کہ اسلامی جمہوریۂ ایران اس سلسلہ میں حکومت کینیڈا کو ایرانی اثاثوں کی حفاظت کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔

دریں اثنا، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے کینیڈا میں ثقافتی امور سے متعلق ایرانی عمارتوں کی فروخت کے کینیڈا کی عدالت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو غیرقانونی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور ایرانی اثاثوں کی جلد از جلد بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس غیر قانونی فیصلے کو منسوخ نہیں کیا گیا اور اس اقدام سے ہونے والے نقصان کا ازالہ نہیں کیا گیا تو اسلامی جمہوریۂ ایران اپنے حقوق کے حصول کے لئے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق اقدام کرے گا اور اس کے تمام تر نتائج کی ذمہ دار کینیڈا کی حکومت ہوگی۔

اس طرح کے ماضی کے اقدامات کے تجربہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کینیڈا سمیت مغربی حکام کے ایران مخالف اقدامات کا ٹھوس جواب نہیں دیا گیا تو ایرانی اموال کی ڈاکہ زنی کا سلسلہ نہیں رکے گا اور بعید نہیں کہ یہ غیر قانونی اقدام دیگر ممالک کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے دباؤ کے ایک حربہ میں تبدیل ہوجائے۔

 

ٹیگس