Dec ۱۳, ۲۰۱۹ ۱۰:۴۰ Asia/Tehran
  • برطانوی انتخابات میں کنزرویٹیو کو واضح اکثریت حاصل

برطانیہ کے عام انتخابات میں وزیراعظم بورس جانس کی کنزویٹو پارٹی نے ساڑھے تین سو سے زیادہ نشستیں حاصل کرلی ہیں اور اسے ایوان میں واضح اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔

لندن سے ہمارے نمائندے کے مطابق الیکشن کمیشن کے جاری کردہ غیرحتمی نتائج کے مطابق چھے سو پچاس کے ایوان میں بورس جانس کی قیادت والی کنزرویٹیو پارٹی نے تین سو پچپن نشستیں حاصل کرلی ہیں اور وہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔

نتا‏‏ئج سے واضح ہوگیا ہے کہ کنزرویٹیو پارٹی آئندہ پانچ سال تک برطانیہ پر حکومت کرے گی اور اسے کسی دوسری جماعت کے ساتھ اتحاد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

حالیہ انتخابات میں جیرمی کوربن کی قیادت والی لیبرپارٹی کو سنگین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسے ایوان میں صرف دو سو دو نشستیں ملی ہیں۔

یہ صورتحال برطانیہ میں انیس سو چوراسی کے عام انتخابات جیسی ہیں جب سابق وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کی قیادت میں کنزرویٹیو پارٹی نے تاریخی فتح حاصل کی تھی اور لیبرپارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

حالیہ انتخابات کا سب سے زیادہ فلش پوائنٹ یہ ہے کہ وزیراعظم بورس جانسن کے سخت ترین مخالف اور لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کی رہنما جو سونسن بھی انتخاب ہار گئی ہیں۔

ان انتخابات کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نائجل فراج کی قیادت والی اینٹی یورپ بریگزٹ پارٹی کا ایک بھی نامزد امیدوار ایوان میں جگہ نہیں بنا سکا ہے۔

برطانیہ میں انتخابات کے غیر حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد پاؤنڈ کی قدر ڈالر کے مقابلے میں دو فیصد بڑھ گئی ہے جبکہ یورو کے مقابلے میں پاؤنڈ کی قدرمیں پچھلے ڈیرھ برس کے مقابلے میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔

برگزٹ کے طویل اور تھکا دینے والے عمل سے نالاں برطانوی عوام نے جمعرات بارہ دسمبر کو قبل از وقت انتخابات میں حصہ لیا تھا تاکہ آنے والی پارلیمنٹ برگزٹ سے ہلکان ملک کی سرنوشت کو واضح کرسکے۔

یورپی یونین نے بھی برطانیہ کے انتخابات میں کنزرویٹیو پارٹی کی کامیابی کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ یورپی سفارت کاروں نے بھی برطانیہ کے انتخابی نتائج اور کنزرویٹیو پارٹی کی حتمی کامیابی کو اطمینان بخش قرار دیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یورپی یونین اوربرطانیہ کو دوہزار بیس کے آخر تک باہمی تجارتی معاملات کو حل کرنا ہوگا کیونکہ اس کے بعد دونوں کے درمیان تجارتی تعلقات یورپی یونین کے فریم ورک سے نکل جائیں گے اور ان پر عالمی تجارتی قوانین کا اطلاق شروع ہوجائے گا۔

البتہ یورپی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ ایک برس کے دوران یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان تجارتی معاملات کا طے پانا انتہائی دشوار دکھائی دیتا ہے۔

برطانوی عوام نے سن دوہزار سولہ میں ہونے والے ریفرنڈم میں اپنے ملک کی یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیئے تھے لیکن علیحدگی کے طریقہ کار کے بارے میں یورپی یونین کے ساتھ پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ سے عوام کا یہ مطالبہ تاحال پورا نہیں ہوسکا اور پھر وزیراعظم بورس جانس کی تجویز پر ملک میں قبل از انتخابات کا اعلان کیا گیا تھا جس کے نتائج ان کے حق میں برآمد ہوئے ہیں۔

یورپی یونین سے اخراج کے لیے ہونے والے ریفرنڈم کے بعد سے برطانیہ کے سرمایہ کاروں اور کاروباری حلقوں میں غیر یقینی کی سی کیفیت پائی جاتی ہے تاہم انہیں امید ہے کہ کنزرویٹیوز کی کامیابی سے بریگزٹ کا عمل جلد مکمل ہوجائے گا۔

ٹیگس