مغربی حکومتوں کی لیبیا میں لشکر کشی کی کوشش
Aug ۰۴, ۲۰۱۵ ۲۱:۴۱ Asia/Tehran
-
مغربی حکومتوں کی لیبیا میں لشکر کشی کی کوشش
برطانیہ، امریکہ، اٹلی، فرانس، اسپین اور جرمنی نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے ساتھ لیبیا کے لئے اپنی افواج روانہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان ممالک کا مقصد یہ ہے کہ وہ لیبیا کے لئے اپنی بری افواج بھیج کر مقامی فوج کو ٹریننگ دینے کے ساتھ ساتھ داعش دہشتگردوں کے خلاف حملے بھی کریں گے اور لیبین حکومت کے اداروں کی تشکیل نو کریں گے۔
آگاہ ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ بعض مغربی ممالک نے دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی افواج لیبیا روانہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لندن سے شایع ہونےوالے اخبارٹائمز کی رپورٹ کے مطابق فوجی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ، امریکہ، اٹلی، فرانس، اسپین اور جرمنی نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے ساتھ لیبیا کے لئے اپنی افواج روانہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان ممالک کا مقصد یہ ہے کہ وہ لیبیا کے لئے اپنی بری افواج بھیج کر مقامی فوج کو ٹریننگ دینے کے ساتھ ساتھ داعش دہشتگردوں کے خلاف حملے بھی کریں گے اور لیبین حکومت کے اداروں کی تشکیل نو کریں گے۔ فوجی ذرائع نے زور دے کر کہا ہے کہ آخری حملے کرنے کے لئے فوجی طیارے لازمی ہونگے اور یہ مشن اس بات کا سبب بنے گا کہ لیبیا میں متحدہ حکومت بہت جلد تشکیل پاجائے۔ یہ اقدام اگست کے مہینے کے اختتام تک انجام پائے گا۔ درایں اثنا برطانوی حکومت کے ایک ذریعے نے کہا ہے کہ برطانیہ لیبیا میں فضائي حملوں میں شرکت نہیں کرے گا کیونکہ اسکی ترجیحات میں عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کرنا ہے۔ برطانیہ، فرانس، امریکہ اور اٹلی کی اسپیشل فورسز لیبیا میں داعش سے وابستہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کریں گي۔اس خبر کے سامنے آنے کے بعد لیبیا کے وزیر اعظم نے اپنے ملک میں ہر طرح کی بیرونی مداخلت کی مخالفت کی ہے۔ عبداللہ الثنی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت باہمی احترام اور داخلی امور میں عدم مداخلت کے اصولوں کے مطابق تمام ملکوں کے ساتھ تعاون کا خیرمقدم کرتی ہے لیکن کسی بھی بیرونی ملک کو لیبیا کی سرزمین پر فوجی مداخلت کی اجازت نہیں دے گي۔لیبیا میں خانہ جنگي نے اسے دیگر ملکوں کی مداخلت کے خطروں سے دوچار کردیا ہے۔ ایک طرف سے داعش دہشت گرد گروہ نے لیبیا کی سرزمیں پر اچھے خاصے علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے جس سے حالات مزید بگڑ گئے ہیں تو دوسری طرف لیبیا کے ہمسایہ ملکوں میں بھی داعش نے دہشتگردی شروع کردی ہے۔ ان اقدامات سے اس علاقے کے ملکوں میں عدم استحکام آگيا ہے۔
ماہرین نے مدتوں قبل لیبیا میں خانہ جنگي کی بابت خبردار کیا تھا۔ ماہرین کے بقول لیبیا میں خانہ جنگي کے جاری رہنے سے لیبیا کے امور میں بیرونی حلقوں کی مزید مداخلت کی زمین ہموار ہوگي۔ بعض آگاہ حلقوں نے یہ بھی خطرہ ظاہر کیا ہے کہ بیرونی ممالک لیبیا کے ٹکڑے بھی کرسکتے ہیں۔ اس حالات میں عالمی حلقوں کی جانب سے لیبیا میں امن قائم کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں، البتہ امن قائم کرنے کے لئے صلاح و مشورے بدستور جاری ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ لیبیا میں جاری جھڑپوں میں شدت بھی آگئي ہے۔ لیبیا کے امور سے آگاہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ لیبیا کی یہ حالت اغیار کی براہ راست اور بالواسطہ مداخلت کا نتیجہ ہے جو انہوں نے معمر قذافی کے بعد شروع کی تھی۔ ان حلقوں کے بقول بیرونی طاقتوں نے لیبیا میں متحارب گروہوں کو ہتھیار دے کر اختلافات کی آگ کو مزید ہوا دی ہے اور لیبیا میں امن و امان تباہ کردیا ہے۔ لیبیا کی مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل خلیفہ حفتر نے کہا ہے کہ قطر، ترکی اور سوڈان متحارب گروہوں کی حمایت کررہے ہیں۔ لیبیا دوہزار گيارہ سے میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ اسی زمانے سے اس ملک میں مخالف گروہوں، عسکریت پسندوں یہانتک کہ پارلیمانی نمائندوں کے درمیان جھڑپيں چلی آرہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں مداخلت پسند طاقتیں لیبیا کے عظیم زیر زمین ذخائر بالخصوص تیل کو لوٹنے میں مشغول ہوچکی ہیں۔ اس وقت اگر مغربی ممالک لیبیا پر حملے کرتے ہیں تو یہ ملک بھرپور طرح سے نابودی کی طرف بڑھتا چلا جائے گا اور بیرونی ممالک کی مداخلت نیز اس کے ٹکڑے ہونے کی زمین ہموار ہوتی جائے گي۔