جرم و جرائم، سعودی عرب پر آل سعود کی حکومت کا نتیجہ
سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے اس ملک میں جرائم بڑھنے کا اعتراف کیا ہے-
سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے ترجمان منصور الترکی نے غربت و بے روزگاری کو اس ملک میں جرم و جرائم کا اصلی سبب قرار دیا اور کہا کہ گذشتہ برس سے اب تک روزانہ دوسو ستر جرائم کے لحاظ سے سالانہ چھیانوے ہزار جرائم درج ہونے سے ملک میں بدامنی اور جرائم میں اضافے کا پتہ چلتا ہے-
منصور الترکی نے گذشتہ برس صرف ستر فیصد مجرموں کی گرفتاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں گذشتہ برس انجام پانے والے جرائم کی شرح میں اس سے پہلے کی نسبت سات فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس سلسلے میں سعودی عرب کے دوسرے صوبوں اور شہروں کی نسبت سب سے زیادہ جرائم ریاض میں درج ہوئے ہیں-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی عرب کی جیلوں کے امور کے سربراہ علی الحارثی نے بھی کہا ہے کہ ریاض میں جرم و جرائم میں اضافے کے باعث اس شہر کی جیلیں بھر چکی ہیں اور اب نئے قیدیوں کے لئے جگہ باقی نہیں بچی ہے-
سعودی عرب کے معاشرے پر ایک نگاہ ڈالنے سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ سلفی تعلیمات کی بنیاد پر قائم استبدادی حکومت کے حامل اس ملک کو سماجی بدامنی سمیت بڑھتے ہوئے داخلی بحرانوں کا سامنا ہے اور وہابی حکومت کے زیر سایہ سعودی معاشرہ عملی طور پر ایک پر تشدد اور مجرم معاشرے میں تبدیل ہو گیا ہے-
بلاشبہ ، سعودی عرب پر آل سعود کی حکومت کا نتیجہ اس ملک کے سیاسی ، اقتصادی اور سماجی بحرانوں میں مبتلا ہو جانے کے سوا کچھ نہیں رہا ہے اور اس طرح کے ماحول میں مختلف اعداد و شمار، شہری حقوق سے عوام کی محرومی اور جرم و جرائم میں بڑی تعداد میں اضافے سمیت تمام میدانوں میں اس ملک کے بدتر سماجی حالات کی عکاسی کرتے ہیں-
بلاشبہ ، سعودی عرب میں سیاسی اور اقتصادی بحران کہ جو آل سعود کی خراب کار کردگی کا نتیجہ رہا ہے ، اس ملک میں سماجی بحران کا باعث بنا ہے-
آل سعود جو معاشرے کے امور چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور عملی طور پر ملک کا کنٹرول اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، مناسک حج جیسے اہم امور کا انتظام سنبھالنے کی توانائی کھو چکی ہے-
ان حالات میں آل سعود ، ان حقائق کا اعتراف کرنے کے بجائے منی سانحے سمیت دیگر مسائل کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دے کر رائے عامہ کی توجہ ان تلخ حقائق کی جانب سے موڑنا چاہتی ہے جن کا آل سعود کی نااہلی کے باعث عرب معاشرے کو سامناہے- آل سعود کی قدامت پرست دقیانوسی حکومت کی کارکردگی کا نتیجہ، سعودی معاشرے میں تشدد پھیلنے کے سوا کچھ نہیں نکلا ہے اور تشدد اور وہابیت کی انحرافی آئیڈیالوجی، سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں اس حکومت کی جنگ پسندی اور مداخلتوں میں شدت کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے- اس وجہ سے آل سعود کی پالیسیوں پر سعودی عرب میں داخلی احتجاج بڑھنے کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی سطح پر اس قدامت پسند حکومت سے نفرت و بیزاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے-
سعودی عرب پر آل سعود کی بدعنوان حکمرانی کا نتیجہ ، مغرب کے آلہ کار خاندان کے زیر کنٹرول اس معاشرے کے زوال اور دور جہالت کی جانب سفر کے سوا کچھ نہیں نکلا ہے- اور علاقے پر اس طرح کی وابستہ پٹھو حکومت کے اثرات صرف بےچینی ، بدامنی اور منی سانحے سمیت مختلف حادثات کی صورت میں ہی برآمد ہوئے ہیں -