ہندوستان پر پاکستان کا الزام
ایسی حالت میں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات بدستور کشیدہ چل رہے ہیں، پاکستان کے وزیراعظم نے ہندوستان پر کشمیر کی کنٹرول لائن پر فائربندی کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دورۂ واشنگٹن میں امریکی صدر بارک اوباما سے ہونے والی ملاقات میں کشمیر اور افغانستان جیسے اہم مسائل پر گفتگو کی۔
انھوں نے بحران کشمیر کے حوالے سے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر ہندوستانی فوجیوں نے فائربندی کی خلاف ورزی کی ہے، عالمی برادری کی جانب سے ہندوستان کی جارحیت کا جواب دیئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
نواز شریف نے اسلام آباد کا اہم ترین مقصد، ہندوستان کے مقابلے میں اپنے ملک کے لئے عالمی حمایت کا حصول قرار دیا اور تاکید کے ساتھ کہا کہ پاکستان، عالمی برادری کی وساطت سے کشمیر کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات کے لئے آمادہ ہے۔
وھائٹ ہاؤس میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر بارک اوباما نے بھی ان سے، افغانستان کے امن مذاکرات میں طالبان کی واپسی کروانے کے لئے مدد کرنے کی اپیل کی۔
پاکستان کے اخبارات کے مطابق نواز شریف نے اس ملاقات میں بارک اوباما کو ان کی والدہ کے پاکستان میں قیام کے دور کی تصاویر کی ایک ایلبم بھی ہدیہ کے طور پر پیش کی۔
حکومت پاکستان اس بات کی توقع کرتی ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکہ، بحران کشمیر کا سیاسی حل قبول کروانے کے لئے ہندوستان پر دباؤ ڈالیں گے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات، کچھ عرصے قبل دونوں ملکوں کی سرحدوں اور کشمیر کی کنٹرول لائن پر فائرنگ کے واقعات رونما ہونے کے بعد سے سخت کشیدہ ہوگئے ہیں۔
سن انّیس سو سینتالیس میں آزادی حاصل کرنے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان، اب تک تین بار جنگ ہوچکی ہے کہ جن میں سے دو جنگیں، کشمیر کے مسئلے پر ہوئی ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان کے حکام، ہندوستان کو بحران کشمیر کو سیاسی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی دعوت دے رہے ہیں تاہم بحران کشمیر کے بارے میں پاکستان کے وزیراعظم کے حالیہ بیان کا اہم ترین نکتہ، ہندوستان سے عالمی برادری کی ثالثی سے مذاکرات کی اپیل ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کی ہندوستان کی جانب سے ہمیشہ مخالفت کی جاتی رہی ہے اور وہ، مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی مسئلہ بنائے جانے کو مسترد کرتا رہا ہے۔
البتہ پاکستان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی حکومت کو، بحران کشمیر کے حل کے لئے کوئی نہ کوئی بنیادی طریقہ قبول کرنا چاہئے۔
ہندوستان، پاکستان اور کشمیری عوام کے نمائندوں کی شرکت سے سہ فریقی مذاکرات کا انعقاد، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل قرارداد کی بنیاد پر کشمیر کے مستقبل کے تعّین کے لئے ریفرینڈم کا انعقاد اور یا نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان امن مذاکرات کے دائرے میں دو جانبہ مذاکرات کا انعقاد، ایسے طریقے ہیں کہ جن سے اسلام آباد حکومت کی نقطۂ نظر سے، بحران کشمیر حل کیا جاسکتا ہے۔
ان طریقوں پر حکومت ہندستان کی مخالفت کے بعد پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون سے بھی اپنی ملاقات میں بحران کشمیر کے حل کے لئے ریفرینڈم کے انعقاد کے لئے حکومت ہندوستان پر دباؤ ڈالے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا جنوبی ایشیاء کے علاقے میں دیرپا امن قائم نہیں ہوسکتا۔
ادھر ہندوستان یہ توقع کر رہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعاون کے فروع کے دائرے میں واشنگٹن، اسلام آباد پر نئی دہلی کے نقطۂ نظر کے مطابق بحران کشمیر حل کئے جانے کے حوالے سے دباؤ ڈالے گا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ خاص طور سے افغانستان کے حوالے سے اسلام آباد کے ساتھ تعاون سے متعلق وھائٹ ہاؤس کی ضرورت، اس بات کی باعث بنی ہوئی ہے کہ امریکہ بھی، ہندوستان اور پاکستان کے سلسلے میں دو رخی پالیسی اختیار کرے کہ جس کا نتیجہ، ان دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ اور علاقے میں بحران و بدامنی جاری رہنا ہے اور یہ ایک ایسی صورت حال ہے کہ جس کی بناء پر نہ صرف یہ کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں جاری کشیدگی کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے بلکہ ان دونوں ملکوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ بھی تیز ہوتی جا رہی ہے کہ جس سے صرف ہتھیار بنانے والی مغربی کمپنیوں کو ہی بھرپور فائدہ پہنچ رہا ہے۔