Oct ۲۶, ۲۰۱۵ ۱۶:۴۲ Asia/Tehran
  • برطانیہ کے سابق وزیراعظم کی عذر خواہی میں تاخیر
    برطانیہ کے سابق وزیراعظم کی عذر خواہی میں تاخیر

برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے، ایک بیان میں، کہ جسے ذرائع ابلاغ نے وسیع پیمانے پر منعکس بھی کیا، بارہ سال قبل عراق پر جنگ، مسلط کئے جانے کے حوالے سے عراقی عوام سے معذرت خواہی کرتے ہوئے باضابطہ طور پر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جنگ عراق، ایک غلطی تھی اور غلط معلومات کی بنیاد پر یہ جنگ وقوع پذیر ہوئی۔

ذرائع ابلاغ نے اتوار کے روز نشر کیا ہے کہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کہا ہے کہ ان حکمرانوں کو، عراق کی موجودہ صورت حال سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا، جنھوں نے عراق کے اس وقت کے صدر صدام کو ہٹانے میں کردار ادا کیا تھا۔


اگرچہ ٹونی بلیئر نے عراق پر حملے میں غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت خواہی کرلی ہے مگر عراقی عوام کا خیال ہے کہ عذر خواہی کرنے میں، ان سے کافی تاخیر ہوئی ہے۔ عراقی عوام نے اپنے ملک میں برطانیہ کی فوجی مداخلت پر کڑی تنقید بھی کی ہے۔


ٹونی بلیئر نے سن دو ہزار تین میں اپنے ملک کی پارلیمنٹ کو اس بات کا یقین دلائے جانے کے بعد کہ عراق میں صدام کے پاس مہلک ہتھیار موجود ہیں، جو برطانیہ کے لئے بڑا خطرہ شمار ہوتے ہیں، اس ملک کے خلاف امریکی جنگ میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ اگرچہ عراق پر حملے کا بہانہ اس ملک کی حکومت کے پاس مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کو بنایا گیا مگر حملہ آور ممالک آج تک عراق میں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کو ثابت نہیں کرپائے۔ کچھ عرصے قبل ان اخبارات نے امریکہ میں جاری کی جانے والی دستاویزات کی بنیاد پر لکھا کہ ٹونی بلیئر نے سن دو ہزار تین میں عراق پر ہونے والے حملے سے ایک سال قبل ہی، امریکہ کے اس وقت کے صدر جارج بش سے جنگ عراق میں اپنے ملک کی شمولیت کا وعدہ کرلیا تھا۔اس جنگ میں دسیوں ہزار عراقی جاں بحق ہوئے اور اس ملک کے بیشتر علاقے تباہ کردیئے گئے اور اس ملک میں اس تباہی و بربادی اور بدامنی کا سلسلہ، آج بھی جاری ہے۔


بیشتر عراقی عوام کے بقول، اگرچہ حملہ آور ملکوں نے عراق میں صدام حکومت کا تختہ پلٹ دیا مگر اس کے بعد انھوں نے عراقی عوام کے مفاد میں کوئی اقدام نہیں کیا اور اس بات کی کھلی چھوٹ دیدی کہ کوئی بھی عرب یا بیرونی ملک، عراق کے داخلی امور میں مداخلت کرے۔


درحقیقت ان کا یہ اقدام، عراق میں تباہی و بربادی کا عمل جاری رہنے کے سوا اور کسی نتیجے کا باعث نہیں بنا۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے معذرت خواہی میں اتنی تاخیر، ایسی حالت میں کی ہے کہ عراقی عوام کو اس وقت مختلف قسم کے مسائل و مشکلات منجملہ ان کے ملک میں داعش جیسے دہشت گرد گروہ کی موجودگی کی بناء پر، شدید بدامنی کا سامنا ہے۔ ان مسائل و مشکلات کے نتیجے میں بیشتر عراقی عوام، دیگر ملکوں منجملہ یورپی ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں اس لئے ٹونی بلیئر کی معذرت خواہی سے ان مسائل و مشکلات کا ہرگز کوئی ازالہ نہیں ہوسکتا۔


حقیقت یہ ہے کہ عراق پر غاصبانہ قبضہ، اس ملک میں عدم استحکام اور داعش کی مانند ایسے خطرناک دہشت گرد گروہوں کے مضبوط ہونے کا باعث بنا، جو عراق اور شام کے بعض علاقوں پر غاصبانہ قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور ان علاقوں میں وحشیانہ ترین جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔اگرچہ ان برسوں کے دوران ٹونی بلیئر کی پالیسیوں خاص طور سے عراق پر حملے میں، ان کی حکومت کے تعاون پر کڑی تنقید ہوئی اور ماہرین کے بقول، سیاست سے ان کی علیحدگی کی ایک وجہ بھی جنگ عراق ہی بنی، تاہم وہ ہمیشہ، جنگ عراق کا دفاع کرتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے سن دو ہزار تیرہ میں، ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ جب ان سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ وہ جنگ عراق پر پشیمان نہیں ہیں؟ تو وہ، یہی کہتے ہیں کہ نہیں، وہ ایک دیو کو ہٹانے پر، کیسے پشیمان ہوسکتے ہیں؟۔


برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے موقف میں، ایسی حالت میں اچانک تبدیلی آئی ہے کہ داعش اور بیشتر ملکوں میں اس گروہ کا پھیلتا ہوا دائرہ، نیز داعش دہشت گردوں کے ہاتھوں وحشیانہ قتل عام، نہ صرف یہ کہ عراق و شام میں بدامنی اور تباہی و بربادی کا باعث بنا ہے اور ان ممالک کے عوام کی زندگی شدید بحران سے دوچار گئی ہے، بلکہ اس دہشت گرد گروہ کی موجودگی، دیگر ملکوں منجملہ برطانیہ اور یورپی یونین کے لئے بڑا خطرہ بھی بنی ہوئی ہے۔


عراق و شام کے بیشتر عوام، اپنے ملکوں میں پائے جانے والے خوف و ہراس اور بدامنی کی بناء پر اپنے ممالک ترک کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور وہ، برطانیہ سمیت تمام یورپی ملکوں کی سرحدوں پر ایسے سخت حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ ان کے ملکوں میں نہ صرف یہ کہ قتل و غارتگری کا سلسلہ بدستور جاری ہے بلکہ داعش جیسے دہشت گرد گروہ کے وجود کا دائرہ،اب لیبیاء جیسے ملکوں تک بھی پھیل گیا ہے۔ پناہ گزینوں کی ایسی صورت حال میں یورپی ممالک کے حکام، یورپی یونین کے قوانین اور اس یونین کا شیرازہ بکھرنے کے سلسلے میں انتباہ دے رہے ہیں۔


اس بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے اعتراف اور معذرت خواہی سے نہ صرف یہ کہ کوئی مشکل یا مسئلہ، حل نہیں ہوگا بلکہ یہ اعتراف اور عذرخواہی، موجودہ بحران اور تنقیدوں سے بچنے کا صرف ایک ہتھکنڈہ شمار ہوتی ہے۔

ٹیگس