Nov ۰۷, ۲۰۱۵ ۱۶:۱۸ Asia/Tehran
  • امریکی اسٹریٹیجی، ایران اور خلیج فارس کے ساحلی ممالک کے درمیان عدم اعتماد کا ماحول پیدا کرنا
    امریکی اسٹریٹیجی، ایران اور خلیج فارس کے ساحلی ممالک کے درمیان عدم اعتماد کا ماحول پیدا کرنا

امریکی وزیر جنگ نے خلیج فارس کے ساحلی ممالک سے کہا ہے کہ وہ اپنی برّی افواج کی تقویت اور خصوصی فورسز کی تشکیل کے ساتھ ایران اور داعش کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔

انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے جریدے اٹلینٹک نے امریکی وزیر جنگ ایشٹن کارٹر کے حوالے سے اس سلسلے میں مزید لکھا ہے کہ خلیج (فارس) کے عربوں کو جنگ میں کود پڑنا چاہئے۔ امریکہ کے فوجی برسہا برس سے خطے میں موجود ہیں۔ درحقیقت سنہ انیس سو اکہتر میں خلیج فارس سے برطانوی فوجیوں کے انخلا کے بعد امریکہ نے خلیج فارس میں اپنی فوجی موجودگی کی تقویت کے لئے خصوصی کوشش کی۔

یہاں تک کہ اس نے بحرین میں اپنا پانچواں فوجی بیڑہ تعینات کر دیا۔ البتہ اب بعض ایسی رپورٹیں بھی سامنے آ رہی ہیں جن کی بنیاد پر امریکہ کا پانچواں بیڑہ بحرین سے جا رہا ہے اور برطانیہ امریکہ کی جگہ لے رہا ہے۔

بحرین نے حال ہی میں برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ اور برطانوی وزیر دفاع مائیکل فالون نے کہا ہے کہ برطانیہ طویل مدت تک مشرق وسطی میں موجود رہے گا۔ ان امور سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ خطے کی صورتحال خصوصا صدام حکومت کی سرنگونی پر منتج ہونے والے عراق پر امریکی حملے کے بعد خطے کی صورتحال بہت تیزی سے تبدیل ہوتی رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خطے میں اغیار کے فوجی اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اور اب بھی یہ سلسلہ نام نہاد داعش مخالف امریکی عرب اتحاد کی صورت میں جاری ہے۔
البتہ امریکہ اور اس کے علاقائی ممالک نے دہشت گرد گروہ داعش کے مظالم کی روک تھام کےلئے کوئی قابل توجہ کام انجام نہیں دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا دہشت گردی سے مقابلے کا کوئی ارادہ ہی نہیں ہے۔ البتہ امریکہ خطے میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کے لئے ان میں تبدیلیاں لا رہا ہے۔

امریکہ خلیج فارس کے ساحلی عرب ممالک کی فوجی طاقت کی تقویت کے ضروری ہونے کے پس پردہ دو مقاصد کے حصول کے درپے ہے ایک تو وہ ان ممالک کے فوجیوں کو ٹریننگ دینا چاہتا ہے اور دوسرے ان ملکوں کو اپنے ہتھیار فروخت کرنا چاہتا ہے۔ البتہ امریکی وزیر جنگ نے اس پالیسی کو جائز ظاہر کرنے کے لئے سابقہ روش سے استفادہ کیا ہے۔ انہوں نے داعش کے مقابلے میں ایران کو زیادہ خطرناک ظاہر کرتے ہوئے براہ راست فوجی اقدامات میں عرب ملکوں کی شرکت کا آئیڈیا پیش کیا ہے۔ امریکہ نےاس آئیڈیئے پر عملدرآمد کرنے کے لئے سعودی عرب پر خصوصی طور پر تکیہ کیا ہے۔

ایشٹن نے تاکید کی ہے کہ خلیج فارس کے ساحلی عرب ممالک امریکہ سے ہتھیار خریدیں تو یہ امریکہ اور اسرائیل کے لئے بہتر ہوگا۔ سنہ دو ہزار پندرہ میں امریکی حکومت نے ایک سو پندرہ ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار کویت ، ایک سو پچاس ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار بحرین ، پینتالیس ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار متحدہ عرب امارات اور ساڑھے انیس ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار سعودی عرب کے ہاتھ فروخت کرنے کی منظوری دی۔

خطے میں قیام امن پر مبنی امریکہ کا دعوی حقیقت سے زیادہ ایک سیاسی طنز کے ساتھ شباہت رکھتا ہے۔ امریکہ نے گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد اسی دعوے کے ساتھ افغانستان اور پھر عراق پر قبضہ کیا تھا۔ لیکن اس کے قبضے اور لشکرکشی کا نتیجہ قیام امن کے بجائے القاعدہ کے وجود میں آنے کی صورت میں برآمد ہوا۔ اس کے بعد القاعدہ کے بطن سے داعش نے جنم لیا۔ دہشت گرد گروہ داعش عراق میں امریکہ کی دس سالہ فوجی موجودگی کا نتیجہ ہے۔

امریکہ نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے داعش کو ایک حربے کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی انہی پالیسیوں کے نتیجے میں یورپ کی جانب تارکین وطن کا سیلاب امڈ رہا ہے حالانکہ امریکہ ہی خطے میں دہشت گردی اور بدامنی کے پھیلاؤ کا سبب ہے۔ اب امریکی وزیر جنگ نے داعش سے مقابلے کی نوعیت کے بارے میں نئے منصوبےکی بات کی ہے جبکہ ان کا مقصد دہشت گرد گروہ داعش کا مقابلہ کرنا نہیں بلکہ خلیج فارس کے ساحلی ممالک کو ایران کے مقابلہ میں صف آرا کرنا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے حال ہی میں بیلسٹک میزائل کے مقابلے اپنے اتحادیوں کو مضبوط بنانے کے لئے ان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کی خبر دی ہے۔ جان کیری نے خلیج فارس کے ساحلی عرب ممالک کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کو ہتھیاروں کی فروخت کے عمل میں تیزی لائی جائے گی اور امریکہ خصوصی فورسز کی تربیت میں شرکت کرے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس اسٹریٹیجی کا اصل مقصد ایران کے بارے میں خوف پیدا کرنا ہے اور داعش کے ساتھ ساتھ ایران کے مقابلے کی ضرورت پر مبنی امریکی وزیر جنگ ایشٹن کارٹر کے بیانات کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جانا چاہئے۔

ٹیگس