Nov ۱۲, ۲۰۱۵ ۱۵:۱۵ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدے  پرعملدرآمد کی تاکید
    ایٹمی معاہدے پرعملدرآمد کی تاکید

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی اور فرانس کے صدر فرانسوا اولاند آئندہ ہفتے الیزہ پیلس میں آپس میں ملاقات اور مذاکرات کرنے والے ہیں۔

ڈاکٹر حسن روحانی نے اس ملاقات سے قبل فرانس کے چینل دو اور ریڈیو یورپ ون کے ساتھ گفتگو میں اپنے دورہ فرانس کو ایران اور فرانس کے باہمی تعلقات میں ایک نئے اور اہم موڑ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ یہ ایک مختصر دورہ ہوگا لیکن امید ہےکہ یہ دورہ دونوں ممالک کے مفادات کے سلسلے میں اٹھایا جانے والا ایک قدم ہوگا۔ اس گفتگو میں مختلف موضوعات کو زیر بحث لایا گیا اور صدر مملکت نے جن امور پر گفتگو کی ان میں سے ایک ایٹمی معاہدہ تھا۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے اس انٹرویو میں ایٹمی معاہدے پر ایران کی پابندی پر تاکید کرتے ہوئےکہا کہ البتہ ایران کی جانب سے اس معاہدے کی پابندی کا انحصار گروپ پانچ جمع ایک کی جانب سے اس معاہدے کی پابندی کئے جانے پر ہے۔

اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ایران ایٹمی معاہدے کے دائرہ کار میں اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنے کے سلسلے میں پرعزم ہے لیکن اعتماد سازی اور وعدوں پر پابندی فریقین کے لئے ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ اگر گروپ پانچ جمع ایک نے اپنے وعدے پرعمل کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایران بھی اس کے متوازی قدم اٹھائے گا۔ اس سلسلے میں دو اہم مسائل پائے جاتے ہیں۔ پہلا مسئلہ اس حقیقت کوتسلیم کرنے سے عبارت ہے کہ ایران نے کبھی بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کی ہے اور نہ اب کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایران ہمیشہ سے ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کا خواہاں رہا ہے لیکن یورپ نے اس سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کرنےکی کوشش کی۔

اس سلسلے میں دوسرا مسئلہ اس معاہدے پر عملدرآمد سے عبارت ہے جو مشترکہ جامع ایکشن پلان کے دائرہ کار میں طے پایا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ اس پر عملدرآمد سے ہمیشہ کے لئے بلاجواز تنازعے کا خاتمہ ہو جائے گا۔ واضح سی بات ہے کہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کا اس سلسلے میں اہم کردار ہے جیسا کہ اب تک اس ایجنسی کی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ ایران پرامن راستے سے ہرگز نہیں ہٹا ہے۔

ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ یوکیا آمانو نے بدھ کے دن بین الاقوامی اسٹڈیز سینٹر میں روڈ میپ کے بارے میں ایران کے ساتھ پندرہ جولائی کے معاہدے پر دستخط کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے اپنے تمام وعدوں پرعمل کیا ہے اور صرف یہ کام باقی رہ گیا ہے کہ ہم مستقبل قریب میں ایران کے ساتھ ایک ملاقات کریں۔

بہرحال یہ بات مسلم ہے کہ ایٹمی معاملے کے بارے میں ایران کا موقف واضح اور شفاف ہے اور رہبر انقلاب اسلامی نے ایک فتوی جاری کر کے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری، ان کو اپنے پاس رکھنے اور ان کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ایران کی دفاعی ڈاکٹرائن میں ایٹمی ہتھیاروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اس سب کے باوجود یورپ کے ماضی کے رویئے کے پیش نظر اس کی جانب سے وعدہ خلافی اور بہانے بنائے جانے کا امکان بعید نہیں ہے۔ ایران مخالف پابندیوں کا خاتمہ اس سلسلے میں ایک اہم معیار شمار ہوتا ہے۔

مشترکہ جامع ایکشن پلان پر دستخط ہونے کے فورا بعد یورپ، ایشیا اور دوسرے خطوں کے ممالک کے سیاسی اور اقتصادی وفود تہران کے دورے اور تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں ایران کے ساتھ مذاکرات کر چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور امریکہ پر اعتماد کرنا ایک مشکل کام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ مختلف حربوں کے ذریعے وعدہ خلافی کرتا رہتا ہے۔

البتہ صرف امریکہ ہی ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کا فریق نہیں ہے بلکہ فرانس سمیت دوسرے ممالک بھی اس معاہدے میں شریک ہیں جو اپنے وعدوں پر عمل کرنے کی تاکید کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہنا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے یہ جو کہا ہے کہ ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی پابندی کا انحصار فریق مقابل کی جانب سے اس کی پابندی پر ہے تو انہوں نے ماضی اور حال کے حقائق اور تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بیانات دیئے ہیں۔

ٹیگس