پاکستان کے وزیراعظم کا دورہ ازبکستان
پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف، وسطی ایشیاء کے ملکوں کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے مقصد سے ازبکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم اپنے اس دو روزہ دورے میں، ازبکستان کے صدر اسلام کریم اف سے علاقائی مسائل اور علاقے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے طریقہ کار کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے۔
جبکہ اس دورے میں دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے مقصد سے سیاسی و اقتصادی تعاون کی، کئی دستاویزات پر دستخط بھی کئے جائیں گے۔
پاکستان کے وزیراعظم کے دورہ تاشقند کا، وسطی ایشیاء کی جمہوریاؤں کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعلقات و تعاون کو فروغ دینے پر مبنی اسلام آباد کی نئی پالیسی کے تناظر میں جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف نے کچھ عرصے قبل ترکمنستان اور قرقیزستان کا دورہ کیا تھا اور حال ہی میں وہ تاجیکستان کے دورے پر بھی گئے تھے۔ان تمام ملکوں کے دورے میں نواز شریف نے ان ممالک کے حکام کے ساتھ مختلف سیاسی و اقتصادی شعبوں میں تعاون کے کئی سمجھوتوں پر دستخط کئے اور ان کے دورہ ازبکستان میں بھی اسی طرح کے سمجھوتوں پر دستخط ہوں گے۔
وسطی ایشیاء کی جمہوریائیں، اپنی سیاسی آزادی کے تحفظ اور روائتی طور پر وابستگی سے دوری اختیار کرنے نیز علاقائی اور غیر علاقائی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کے لئے علاقے کے ملکوں کے ساتھ تعاون کے فروغ کو خاص اہمیت دیتی ہیں۔
وسطی ایشیاء کی جمہوریاؤں کے حکام، یہ سمجھتے ہیں کہ وہ، پاکستان کے ساتھ سیاسی اور یہاں تک کہ سیکورٹی تعاون کے فروغ کے ساتھ ساتھ، طالبان گروہ میں اسلام آباد کے پائے جانے والے اثر و رسوخ سے استفادہ کرتے ہوئے افغانستان کا بحران، اور اس ملک سے انتہا پسند گروہوں کا، وسطی ایشیاء کے دیگر ملکوں میں اثر و وسوخ بڑھنے کی روک تھام کرسکتے ہیں۔ جبکہ پاکستان بھی اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ اس علاقے کی جمہوریاؤں کے ساتھ تعلقات کا فروغ اور شنگھائی تعاون تنظیم میں ان ممالک کا اثر رسوخ، اس تنظیم میں اس کی مستقل رکنیت پر منتج ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان، اس بات میں بھی دلچسپی رکھتا ہے کہ وسطی ایشیاء کی جمہوریاؤں کے ساتھ تعلقات و تعاون کی توسیع کے ذریعے اپنے علاقائی حریف ملک ہندوستان کا روائتی و سیاسی اثر و رسوخ کم کرے۔جبکہ ان ممالک میں پاکستان کی ضرورت سے متعلق پائی جانے والی توانائی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ترکمنستان کی مانند ازبکستان بھی، نہ صرف گیس کے ذخائر کا حامل ہے بلکہ وہ علاقے میں گیس کی منڈیوں کی تلاش میں بھی ہے۔
بنابریں بعید نہیں کہ پاکستان، تاپی گیس پائپ لائن کا پروجیکٹ تعطل کا شکار ہونے کے بعد، کہ جس کے ذریعے ازبکستان کی گیس کو افغانستان اور پاکستان اور پھر ہندوستان منتقل کیا جانا ہے، ہندوستان کی شمولیت کے بغیر اس حوالے سے نئے منصوبے کے درپے ہو تاکہ اپنی ضرورت کی گیس حاصل کر سکے۔
دوسری جانب مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کے ساتھ ان جمہوریاؤں کے براہ راست اور فوجی تعاون پر، وسطی ایشیاء کے ملکوں نیز روس کی رائے عامہ کی بڑھتی ہوئی حساسیت کے بعد، پاکستان، اس بات میں بھی دلچسپی رکھتا ہے کہ وسطی ایشیاء کے ملکوں کے ساتھ امریکہ کے تعاون سے متعلق واشنگٹن کی علاقائی پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں وساطت کا کردار ادا کرے۔
خاص طور سے ایسی صورت میں کہ اسلام آباد حکام کی نظر میں ان کے ملک کا اس طرح کا کردار، امریکہ کی علاقائی حکمت عملی میں پاکستان کی پوزیشن مستحکم بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔جبکہ یہ امر، ممکنہ طور پر وسطی ایشیاء کے علاقے میں نئی سیاسی محاذ آرائی کا مظہر واقع ہوسکتا ہے۔
اس طرح سے کہ علاقے کے میدان میں ایک طرف، روس اور ہندوستان، اور دوسری طرف امریکہ اور پاکستان قرار پا سکتے ہیں۔جبکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چین بھی پاکستان کے ساتھ ماضی کے اپنے خوشگوار تعلقات کے پیش نظر، اسی نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ وسطی ایشیاء کی جمہوریاؤں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا فروغ، علاقائی توازن اور مسائل میں بیجنگ کے مواقف کی مضبوطی میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
چنانچہ مجموعی صورت حال کے تناظر میں ممکنہ طور پر نواز شریف کے دورہ اسلام آباد کے اعلان شدہ مقاصد اور وسطی ایشیاء کی جمہوریاؤں کے ساتھ ہمہ جہتی تعلقات کی توسیع کے لئے اسلام آباد کی کوشش، علاقائی اور غیر علاقائی سطح پر کردار ادا کرنے والے ممالک کے مقاصد اور ان کے رویے کے، زیراثر قرار پاسکتی ہے۔ بنابریں اسی زاویے سے علاقے اور وسطی ایشیاء کی جمہوریاؤں کی موجودہ سیاسی و سیکورٹی کی صورت حال کے تناظر میں پاکستان کے وزیراعظم کے دورہ ازبکستان کے مقاصد کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔