Nov ۲۶, ۲۰۱۵ ۱۶:۱۸ Asia/Tehran
  • فرانس دہشت گردی اور پناہ گزینوں کے بحران کا شکار
    فرانس دہشت گردی اور پناہ گزینوں کے بحران کا شکار

فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے کہا ہے کہ دہشت گردوں اور پناہ گزینوں کو ایک زمرے میں شمار نہیں کرنا چاہئے۔ فرانسوا اولاند نے بدھ کے دن الیزہ پیلس میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پناہ گزینوں کو اپنے ہاں جگہ دینا اور ان کی حمایت کرنا یورپ کا فرض ہے۔

فرانسیسی صدر نے مزید کہا کہ دہشت گرد گروہ داعش کے حملوں اور مظالم سے بچنے کے لئے شام کے بہت سے شہری فرار ہو کر یورپ میں پناہ کے خواہاں ہیں اور یہ یورپ کا فرض ہےکہ وہ ان افراد کو پناہ دے۔

یہ بیانات ایسی حالت میں سامنے آئے ہیں کہ جب فرانسیسی وزیراعظم مانوئیل والس نے یورپی یونین کے رکن ممالک سے کہاہے کہ وہ اس براعظم میں پناہ گزینوں کے داخلے کی روک تھام کریں۔

پیرس میں تیرہ نومبر کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ، کہ جن میں دو پناہ گزین بھی ملوث تھے، فرانس سمیت یورپی ممالک میں مسلمانوں اور پناہ گزینوں پر دباؤ میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ البتہ فرانس کی حکمراں جماعت سوشلسٹ پارٹی کے سیاسی حریف بھی حکومت کی خارجہ پالیسی کے آگے سوالیہ نشان لگانے کے لئے اس مسئلے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ فرانس میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتیں، کہ جو اس ملک میں پناہ گزینوں کی موجودگی کی مخالف ہیں، سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک سے پیرس حکومت کے دور رہنے کی خواہاں ہیں۔ فرانس کے قومی محاذ کی سربراہ مارین لو پین (Marine Le Pen) نے پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے مختلف پہلووں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ " اپنے دشمن کی تشیخص اور تعین کا تقاضا ہے کہ ہم عالمی سطح پر اپنی دوستیوں پر نظر ثانی کریں"

فرانس کے دائیں بازو کی جماعتیں اس بات پر تاکید کر رہی ہیں کہ اس ملک کے بین الاقوامی اتحادوں اور سمجھوتوں نے فرانس کو ایک ایسی ڈگر پر ڈال دیا ہے کہ آج وہ داعش جیسے انتہا پسند گروہوں کے ساتھ دشمنی کے بجائے ان کے حامیوں کا اتحادی بنتا جا رہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے پیرس میں ہونے والے حالیہ حملوں کے بعد فرانسوا اولاند نے داعش سے مقابلے کے لئے روس کے ساتھ قریبی تعاون کی ضرورت پر تاکید کی اور شام میں بشار اسد کی حکومت سے متعلق اپنے موقف میں لچک پیدا کی ہے۔

فرانسیسی صدر اب تک اقتدار سے بشار اسد کی برطرفی کے حامیوں میں شامل تھے لیکن اب وہ اپنا موقف دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں وقت کا تعین کسی قدر قبل از وقت ہے۔ فرانسوا اولاند روس کا دورہ کر کے اس ملک کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ داعش کے مقابلے کے بارے میں تبادلۂ خیال کرنے والے ہیں۔

لیکن یہ دورہ ایسی حالت میں انجام پا رہا ہے کہ جب ترکی کی جانب سے روسی لڑاکا طیارے کے سرنگوں کئے جانے اور اس کے بعد انقرہ اور ماسکو کے تعلقات میں کشیدگی آنے کے بعد مطلوبہ اتحاد تشکیل دینے پر مبنی فرانسوا اولاند کے ہدف کی راہ میں رکاوٹ کھڑی ہوگئی ہے۔ اس صورتحال کے جاری رہنے کی صورت میں خطے میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ سے متعلق اختلافات میں بھی شدت پیدا ہوگی اور یورپ میں پناہ گزینوں کے بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔

ٹیگس