شام کی جنگ اور برطانوی وزیر اعظم کا جوا
-
شام کی جنگ اور برطانوی وزیر اعظم کا جوا
برطانوی پارلیمنٹ سے اجازت نامہ حاصل کرنے کے فورا بعد اس ملک کے لڑاکا طیاروں نے شام میں دہشت گرد گروہ داعش کے ٹھکانوں پر حملے شروع کر دیئے۔
برطانوی پارلیمنٹ نے بدھ کے دن دس گھنٹوں کی بحث کے بعد آخر کار دہشت گرد گروہ کے ٹھکانوں پر حملے کا دائرہ عراق سے شام تک بڑھائے جانے کی منظوری دے دی۔ اس کے حق میں تین سو ستانوے اراکین پارلیمنٹ جبکہ مخالفت میں دو سو تیئیس اراکین پارلیمنٹ نے ووٹ ڈالے۔ شام اور عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر حملے اس دہشت گرد گروہ کےمقابلے سے متعلق امریکہ کی زیر قیادت اتحاد کے اقدامات کا حصہ ہیں۔
برطانوی فوجی اگرچہ عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر حملوں میں شرکت کرتے رہے ہیں لیکن سنہ دو ہزار تیرہ میں برطانوی پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کے مطابق ان کو شام میں فوجی کارروائی کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ البتہ برطانوی وزیر اعظم اور کنزرویٹو پارٹی کے رہنما ڈیوڈ کیمرون کافی عرصے سے شام کی سرزمین میں حملے کے سلسلے میں اپنے یورپی اتحادیوں کا ساتھ دینے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
لیبر پارٹی کی مخالفت کی وجہ سے حکمران پارٹی کے رہنما برطانیہ کے دارالعوام میں اس مسئلے پر بحث کے سلسلے میں لیت و لعل سے کام لیتےرہے۔ دریں اثناء یورپ کو دہشت گردانہ حملوں کے ڈورنے خواب سے دوچار کردینے والے پیرس کے دہشت گردانہ حملوں کے باعث ڈیوڈ کیمرون کی پوزیشن مضبوط ہوگئی اور آخر کار انہیں فضائی حملوں کا دائرہ شام کی سرزمین تک پھیلانے کے سلسلے میں برطانوی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے میں کامیابی مل گئی۔
شام اور عراق میں دہشت گرد گروہ داعش کے ٹھکانوں پر امریکہ کی قیادت والےداعش مخالف اتحاد کے حملوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہےاور ان حملوں میں برطانیہ کی شرکت بھی ان ناکام کارروائیوں میں ممد و معاون ثابت نہیں ہوسکتی ہے۔
البتہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس مہم جوئی میں شرکت کرنے کے ذریعے داعش کے خلاف حملوں میں شدت پیدا کرنے سے زیادہ بین الاقوامی امور میں برطانیہ کی پوزیشن کو مستحکم بنانے او عالمی تعلقات میں برطانیہ کے کردار کو تقویت پہنچانے کے درپے ہیں۔
ڈیوڈ کیمرون کو امید ہے کہ شام کی سرزمین پر فضائی حملوں میں اپنے اتحادیوں کا ساتھ دینا صرف علامتی اقدام ہے اور عملی طور پر اس کے اثرات مرتب نہیں ہوں گے اور اس سے لندن کو اس مسئلے میں اپنی پھرتی دکھانے کا زیادہ موقع میسر آئے گا کہ جس دائرہ شام اور خطےتک محدود نہیں ہے۔
برطانوی حکام اس بات کے مدعی ہیں کہ شام میں داعش کی دہشت گردی کے خطرے کے مقابلے کی ذمےداری اخلاقی طور پر لندن کے اتحادیوں کے سپرد نہیں کی جا سکتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ شام پر حملوں میں اپنے اتحادیوں کا ساتھ دیئے بغیر اس سلسلے میں زیادہ حصہ حاصل کرنے کی توقع بھی نہیں رکھ سکتا ہے۔
امریکہ کی قیادت میں داعش مخالف اتحاد میں برطانیہ کی زیادہ شرکت سے ملکی اور علاقائی سطح پر تو شاید ڈیوڈ کیمرون کے سیاسی اہداف حاصل ہو جائیں لیکن میدان جنگ میں عملی طور پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ حتی ممکن ہے کہ جیسا کہ برطانوی حکومت کی اپوزیشن کے رہنما جرمی کوربین (Jeremy Corbyn) نے کہا ہے کہ شام میں جنگ میں عجلت پسندی پر مبنی برطانیہ کی شرکت اس ملک میں سیکورٹی سے متعلق تشویش میں اضافے کا بھی باعث بنے گی۔
اب دیکھنا یہ ہےکہ آیا برطانوی حکومت نے جنگ شام میں جو جوا کھیلا ہے اس میں کامیاب ہوتی ہے یا وہ سنہ دو ہزار تین میں عراق پر حملے میں امریکہ کا ساتھ دینے جیسا عمل دہرا کر ایک اور جنگ کے دلدل میں دھنس جاتی ہے؟