امریکی کانگریس کا بل، ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کے علاوہ اس ملک کی نسبت عدم اعتماد کی علامت
دہشت گردی کے خلاف مہم کے بہانے امریکہ کی ویزا پالیسی میں تبدیلی کا قانون، پریس اور سیاسی حلقوں میں بدستور ایک زیربحث موضوع بنا ہوا ہے۔
اس قانون کے مطابق بغیر ویزے کے امریکہ کا سفر کرنے کی سہولت کے حامل دنیا کے اڑتیس ممالک کے ان شہریوں کو، جنھوں نے گذشتہ پانچ برسوں کے دوران ایران، عراق، شام اور سوڈان کا سفر کیا ہوگا یا ان ممالک کا سفر کریں گے، امریکہ کا سفر کرنے کے لئے ویزا حاصل کرنا ہوگا۔اس قانون پر عملدرآمد سے تاجروں کی جانب سے ایران کا سفر کرنے سے گریز کیا جاسکتا ہے جس سے جاپان اور یورپی ملکوں کے ساتھ ایران کے اقتصادی و تجارتی تعلقات پر اثر پڑنے کے علاوہ ایران کی سیاحت کی صنعت کو بھی نقصان پہنچے گا۔
ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان طے پانے والے ایٹمی معاہدے کی اٹھائیسویں شق میں فریقین نے وعدہ کیا ہے کہ وہ، نیک نیتی کے ساتھ، خوشگوار ماحول میں ایک دوسرے کے احترام کی بنیاد پر ایٹمی معاہدے پر عمل کریں گے اور کسی بھی ایسے منفی اقدام سے گریز کریں گے کہ جس سے اس معاہدے پر عملدرآمد میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔
ایٹمی معاہدے کی انتیسویں شق میں بھی امریکہ اور یورپی ممالک نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ، اپنے قوانین میں ایسے کسی اقدام سے بھی گریز کریں گے، جس سے ایران کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعلقات، معمول پر لائے جانے کا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔
ایٹمی معاہدے میں کئے جانے والے ان وعدوں کے پیش نظر امریکہ کی نئی ویزا پالیسی کا قانون، تجارتی تعلقات معمول پر لانے کے بارے میں ایٹمی معاہدے میں شامل بعض نکات کی خلاف ورزی ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے جمعے کے روز شائع ہونے والے اخبار نیویارکر کے ساتھ اپنے انٹرویو میں صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ امریکی کانگریس کا یہ قانون، بالکل بے معنی اور غیر منطقی ہے۔ انھوں نے سوال پوچھا ہے کہ مغرب میں کیا کوئی، کسی ایرانی یا ایرانی نژاد شہری کے حملے کا نشانہ بنا ہے؟ جبکہ زیادہ تر لوگ امریکہ کے اتحادی ملکوں کے شہریوں اور یا اس کے اتحادی ملکوں کا سفر کرنے یا پھر ان ممالک سے آمد و رفت کرنے والے شہریوں کے ہی حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔
اس رو سے ایران کے سلسلے میں کوئی بھی ایسا اقدام، غلط اطلاعات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ محمد جواد ظریف نے اس سلسلے میں گیارہ ستمبر کے حملوں اور سین برنار ڈینو اور پیرس کے حالیہ حملوں کا بھی ذکر کیا۔بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی کانگریس کا اقدام، ایٹمی معاہدے میں کئے جانے والے وعدوں کی خلاف ورزی کا آئینہ دار ہے۔
اس بارے میں دو عوامل کار فرما ہیں، ایک، امریکی پالیسیوں میں عدم استحکام اور ان پالیسیوں کی نسبت پایا جانے والا عدم اعتماد ہے جو پہلے سے ہی ایٹمی معاہدے کی راہ میں مشکلات کا باعث بنی رہی ہیں۔
دوسرے یہ کہ اس قسم کا رویہ، امریکی کانگریس میں صیہونی اور دیگر لابیوں کے زیر اثر اختیار کیا گیا ہے۔
اس بات کے پیش نظر، یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکی ڈیپلومیسی، بدستور ایٹمی معاہدے کو ناکارہ بنانے اور اس پر عملدرآمد کی روک تھام کے لئے صیہونی لابی کی کوششوں کے زیر اثر ہے۔ امریکی کانگریس کے اس بل کو یورپی یونین کی جانب سے بھی ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کے برخلاف اقدام سے تعبیر کیا گیا ہے۔
امریکہ میں یورپی یونین کے سفیر ڈیویڈ سالیوان اور یورپ کے اٹھائیس ملکوں کے سفراء نے اپنے ایک کھلے خط میں امریکی کانگریس کے اس قانون پر کڑی تنقید کی ہے۔ اس خط پر دستخط کرنے والے ان یورپی ملکوں کے سفراء نے خبردار کیا ہے کہ امریکی کانگریس کا بل، نہ صرف یہ کہ غیر تعمیری ہے بلکہ وہ، امریکی شہریوں کے بارے میں بھی جوابی قانونی اقدامات پر منتج ہوگا اور اس سے، سیکورٹی بڑھے بغیر، بحر اطلس کے دونوں طرف کے ملکوں کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچے گا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے نام اپنے ایک خط میں دعوی کیا ہے کہ اس قانون کا مقصد ایٹمی معاہدے کو خطرے میں ڈالنا نہیں ہے اور ان کے ملک کی حکومت، بعض شرطوں میں استثنا کی قائل ہوسکتی ہے جس کے تحت ممکن ہے کہ وہ اس قانون پر عمل بھی نہ کرے۔البتہ جان کیری نے اپنے خط میں یہ واضح نہیں کیا کہ ان کی نظر میں کونسی شرطیں ہیں۔
ایران کے نقطۂ نظر سے جان کیری کا یہ خط، تسلی بخش نہیں سمجھا جاتا۔ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے المانیٹر ویب سائٹ سے گفتگو میں کہا ہے کہ تہران، اس سلسلے میں حکومت امریکہ کے فیصلے کا منتظر ہے تاکہ دیکھا جاسکے کہ وہ، اس قانون کی صورت میں ایران کے ساتھ طے پانے والے ایٹمی معاہدے میں، کئے جانے والے معاہدوں پر کیسے عمل کرتی ہے۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی گروپ پانچ جمع ایک کے رکن ملکوں کو خبردار کیا ہے کہ امریکہ سمیت گروپ پانچ جمع ایک کا کوئی بھی ملک، اگر ایٹمی معاہدے کی شقوں پر عمل نہیں کرتا ہے تو اسلامی جمہوریہ ایران بھی ایٹمی معاہدے سے دستبردار ہوکر کوئی اور راستہ اختیار کرلے گا۔