اسرائیل کے اقدامات پر اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار کا استعفی
فلسطین میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رپورٹر نے صیہونی حکومت کے طرز عمل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔
اقوام متحدہ نے پیر کے روز ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطین میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رپورٹر مکارم ویبی سونو نے صیہونی حکومت کے طرزعمل پر احتجاج کرتے ہوئے اپنا استعفی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سربراہ کو پیش کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مکارم ویبی سونو نے صیہونی حکومت کی جانب سے انھیں اسرائیل کے مختلف علاقوں میں جانے سے روکنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مکارم ویبی سونو نے مطالبہ کیا ہے کہ صیہونی حکومت دو ہزار چودہ میں غزہ پر پچاس روزہ جارحیت کے دوران ڈیڑھ ہزار سے زائد فلسطینی شہریوں کے قتل عام کا جواب دے۔ صیہونی حکومت نے اس پچاس روزہ جارحیت کے بعد سے کئی بار انھیں مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل کے مختلف علاقوں میں جانے سے روکا ہے۔
صیہونی حکومت کے جرائم اس قدر واضح و آشکار ہیں کہ جو بھی بین الاقوامی ادارہ، کمیٹی یا شخصیت اس سلسلے میں تحقیق کرنا چاہتی ہے وہ جلد ہی صیہونی حکومت کے جرائم کی گہرائی کی جانب متوجہ ہو جاتی ہے اور اپنے موقف اور رپورٹوں میں غاصب صیہونی حکومت کے جارحانہ اقدامات اور طرز عمل پر اپنی نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ صیہونی حکومت کے اقدامات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ صیہونی حکومت نے ہمیشہ اپنے جرائم کی تحقیقات کے سلسلے میں بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹیوں کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی ہے یا ان کمیٹیوں کی رپورٹوں پر کسی بھی قسم کے عمل کے بغیر انھیں اقوام متحدہ کے ریکارڈ روم کا حصہ بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
واضح رہے کہ صیہونی حکومت نے اپنے جرائم کا پردہ فاش ہونے کے خوف سے ہمیشہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی اسرائیل کے جرائم کے بارے میں تحقیقات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں اور وہ ان کمیٹیوں پر الزامات عائد کر کے تحقیقاتی کمیٹییوں کو اسرائیل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ بہرحال مکارم ویبی سونو کی صیہونی حکومت پر تنقید اور ان کا اپنے عہدہ سے استعفی ایک طرف تو غاصب صیہونی حکومت سے عالمی نفرت کی عکاسی کرتا ہے اور دوسری طرف صیہونی حکومت کے مقابل اقوام متحدہ کی بےعملی پر احتجاج کے بھی مترادف ہے۔
بین الاقوامی ادارے ایسے حالات میں صیہونی حکومت کے جرائم کے بارے میں سستی اور لاپرواہی اختیار کیے ہوئے ہیں کہ جب اس حکومت کے جرائم کا جائزہ لینے کے سلسلے میں اقوام متحدہ اور اس سے وابستہ اداروں کی تحقیقاتی کمیٹیوں کی رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ اس حکومت نے بارہا فلسطینیوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی ادارے اس سلسلے میں صیہونی حکومت کے خلاف عملی طور پر کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر بائیس روزہ جنگ میں غزہ کے عوام کے قتل عام کے خلاف گولڈ اسٹون کے نام سے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کامل اور جامع ہونے کے باوجود اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ریکارڈ روم کی زینت بنا دی گئی اور دنیا نے کبھی اسرائیل کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ تمام شواہد و دستاویزات اور بین الاقوامی شخصیات اور حکام کے بیانات نے اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں چھوڑا ہے کہ صیہونی حکومت نے غزہ کے خلاف اپنی متعدد جارحیتوں اور جنگوں کے دوران جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور یہ بات اتنی واضح و آشکار ہے کہ اس کے بارے میں تحقیق کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اسرائیل کے جرائم کے خلاف کارروائی میں بین الاقوامی اداروں کی سستی نے عملی طور پر اسرائیل کے جرائم جاری رہنے میں اہم اور موثر کردار ادا کیا ہے اور اس پر حتی ان اداروں کے حکام نے بھی تنقید اور احتجاج کیا ہے اور مکارم ویبی سونو کے اپنے عہدے سے استعفے کا اسی تناظر میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔