صیہونی جرائم کے خلاف موقف
گذشتہ ہفتوں میں اسرائیلی تشدد میں اضافے کے نتیجے میں اب تک ایک سو پچپن فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی اور گرفتار ہو چکے ہیں اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلیوں کا تشدد جاری رہنے کے باعث ان اعداد و شمار میں اضافہ ہو رہا ہے-
فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کی سرکوبی کے سلسلے میں منظرعام پر آنے والی نئی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت نے گذشتہ ہفتوں کے دوران جرائم کی نئی لہر میں فلسطینیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگی اور ہولناک جرائم انجام دیئے ہیں-
صیہونی حکومت، تشدد اور خوف و وحشت پیدا کرکے علاقے میں اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے اور اسی وجہ سے دنیا اس ٹریجڈی کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ جو جرائم پیشہ صیہونی حکومت نے فلسطینیوں کے خلاف رقم کی ہے-
یہ ایسے عالم میں ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے بڑھتے ہوئے جرائم کے خلاف موقف اختیار کرنے کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور سوئیڈن کی وزیر خارجہ مارگوت والسٹروم نے منگل کو فلسطینی عوام کے قتل عام اور فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے تشدد آمیز اقدامات کے سلسلے میں تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے- سوئیڈن کے وزیرخارجہ کے ان بیانات پر صیہونی حکام سیخ پا ہوگئے ہیں-
یہ پہلی بار نہیں ہے جب سوئیڈن کی وزیر خارجہ کا بیان صیہونی حکومت کے مشتعل ہونے کا باعث بنا ہے - انھوں نے دو مہینے پہلے بھی اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینی مظاہرین کو فائرنگ کا نشانہ بنائے جانے اور فلسطینیوں کو امداد پہنچانے میں اسرائیل کی جانب سے رکاوٹ کھڑی کئے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل درحقیقت مقدمہ چلائے بغیر فلسطینیوں کو سزائے موت دے رہا ہے -
بہرحال گذشتہ مہینوں میں صیہونی حکومت کے جرائم میں اضافے نے عوامی احتجاج کی ایک لہر دوڑا دی ہے یہاں تک کہ یورپی حکومتیں بھی اسرائیلی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے لگی ہیں-
قابل ذکر ہے کہ رائے عامہ اور ملت فلسطین کو ہمیشہ یہ توقع رہی ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کی جائے اور اس کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں تاکہ ملت فلسطین پر جبری تشدد اور غاصبانہ قبضے کی مخالفت میں حقیقی عالمی عزم و ارادہ نظر آئے-
یہ ایسے عالم میں ہے کہ صیہونی حکومت نے اپنی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹروں کے داخلے کی مخالفت کی ہے- صیہونی حکومت کے اس اقدام سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے جرائم کے بین الاقوامی سطح پر آشکار ہونے کے حوالے سے پہلے سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہے اور اس بنا پر دنیا ، عالمی سطح پر اس حکومت کی منھ زوری اور زور زبردستی کے نئے سلسلے کو دیکھ رہی ہے-
اسی تناظر میں امریکہ اور بعض مغربی حکومتوں کی خلاف ورزیوں اور شکست خوردہ رویے کی بنا پر سلامتی کونسل میں بھی اقوام متحدہ کی رپورٹوں کا جائزہ نہیں لیا گیا اور عملی طور پر صیہونی حکومت کے خلاف کوئی موقف اختیار نہیں کیا گیا- اور اسی وجہ سے صیہونی حکومت اپنے جرائم کو دہرانے کے سلسلے میں مزید گستاخ ہوگئی ہے-
اس تناظر میں دوہزار نو میں بائیس روزہ غزہ جنگ کے دوران فلسطینیوں کے قتل عام کے بارے میں گولڈاسٹون نامی اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کی جانب بھی اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ جو مکمل اور جامع ہونے کے باوجود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے سردخانے میں ڈال دی گئی اور دنیا نے آج تک اسرائیل کو عدالت کے کٹھرے میں نہیں دیکھا-
ان حالات میں رائے عامہ، اقوام متحدہ اور عالمی اداروں سے اسرائیل کے جرائم کی تحقیقات اور اس کے ذمہ داروں پر مقدمہ چلانے اور انھیں قرار واقعی سزا دیئے جانے کی توقع رکھتی ہے نہ کہ صرف تحقیقات چاہتی ہے کہ جن کا چند رپورٹوں کے شائع ہونے کے باوجود عملی طور پر اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے-