پر تشدد انتہا پسندی کے مقابلے سے متعلق ایران کا موقف
اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے غلام علی خوشرو نے تاکید کی ہے کہ تشدد اور انتہا پسندی کا مقابلہ اس انداز سے کیا جانا جس سے اس لعنت کا قلع قمع کرنے کے سلسلے میں عالمی برادری کے پختہ عزم کا عکاس ہوتی ہو۔
غلام علی خوشرو نے انتہا پسندی کے مقابلے سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی اجلاس میں ایران کے مواقف بیان کئے ۔
غلام علی خوشرو نے پرتشدد انتہا پسندی کے مقابلے سے متعلق پیش کی جانے والی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی تجویز کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ یہ تجویز اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں تمام رکن ممالک کو پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کے ذرائع اور روشوں پر توجہ کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
غلام علی خوشرو نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف ہے کہ اس سلسلے میں ہر طرح کی تجویز رکن ممالک اور تنظیموں کی جانب سے بنیادی اور سنجیدہ اقدام کئےجانے پر منتج ہونی چاہئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران دہشت گردی، تشدد اور انتہاپسندی کے مقابلے سے متعلق قراردادیں اور تجاویز اقوام متحدہ کو پیش کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے اور وہ اس سلسلے میں مدد دینے والی ہر تجویز کا خیر مقدم بھی کرتا ہے۔
سنہ دو ہزار تیرہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تشدد اور انتہاپسندی سے پاک دنیا کے نام سے منظور ہونے والی قرارداد اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے پیش کی تھی۔جس سے ایران کے اسی موقف کی عکاسی ہوتی ہے۔
البتہ تمام ممالک کی جانب سے فرض شناسی کا مظاہرہ کئے جانے کی صورت میں ہی ان تجاویز کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ صرف شفافیت کی صورت میں ہی دہشت گردی کے مقابلے میں مثبت کردار ادا کیا جاسکتا ہے اور کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی شاید دہشت گردی کے مقابلے کے لئے اہم اور موثر طریقہ ہائے کار پیش کرے حتی ان کو قرارداد کے طور پر منظور بھی کر لے لیکن جب تک یہ قراردادیں لازم الاجرا نہیں ہوں گی تب تک ان کوعملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا ہے۔
ایران کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کی منظوری کو دو سال ہو گئے ہیں ان دو برسوں کے دوران پرتشدد انتہاپسندی نیز فرقہ واریت سمیت اس کے منفی اثرات میں اضافہ ہوا ہے۔ خطے کی تلخ صورتحال سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ دہشت گردی کے پھیلاؤ اور اس سے متعلق بعض ممالک کی دہری پالیسی کے درمیان ایک طرح کا ربط پایا جاتا ہے۔
اس ربط کا نتیجہ عراق اور شام میں دہشت گردی کے پھیلاؤ کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ داعش جیسے دہشت گرد گروہ یورپ کی علاقائی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں اس کے آلۂ کار ہیں۔ بنابریں انتہا پسندی اور تشدد کے مقابلے سے متعلق خطے کے بعض ممالک اور یورپ کی کارکردگی کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ یہ ممالک اس بات کے بھی معترف ہیں کہ پرتشدد انتہاپسندی جس قدر اب خوفناک صورتحال اختیار کر چکی ہے پہلے اس قدر خوفناک نہیں تھی۔ درحقیقت پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ عالمی برادری اس سلسلےمیں شفاف اور دو ٹوک رویئے کا مظاہرہ کرے۔ موجودہ دور میں تشدد اور انتہا پسندی مختلف معاشروں کے لئے بنیادی ترین خطرہ ہے۔
تشدد اور انتہاپسندی امن واستحکام کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور اقتصادی ترقی کے لئے بھی خطرہ شمار ہوتی ہے اور جب تک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے سلسلے میں دہری پالیسیاں اختیار کی جاتی رہیں گی تب تک موجودہ صورتحال کا تبدیل ہونا ممکن نہیں ہے۔ انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر اس کے مقابلے کے سلسلے میں اٹھایا جانے والا ہر اقدام ایسے مضبوط اور واضح فیصلے پر استوار ہونا چاہئے کہ جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہو کہ عالمی برادری پرتشدد انتہاپسندی روک تھام اور اس کے مقابلے کا پختہ عزم رکھتی ہے۔
آج کی دنیا میں خطرات تمام حدود کو پار کر چکے ہیں اور اس پرتشدد انتہاپسندی کے مقابلے کا واحد راستہ عالمی برادری کی مشترکہ کوشش سے عبارت ہے ۔ اور اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے بھی اسی حقیقت پر تاکید کی ہے۔