فرانسیسی وزیر دفاع کے بیانات پر روسی وزارت دفاع کا رد عمل
روسی وزارت دفاع نے شام میں ماسکو کی کارکردگی پر تنقید کرنے والوں کو دہشت گرد گروہوں کے وجود میں آنے کا ذمےدار قرار دیا ہے۔
روسی وزارت خارجہ کے ترجمان ایگور کوناشنکوف نے ہفتے کے دن شام میں روسی فضائیہ کی کارروائی سے متعلق فرانسیسی وزیر دفاع ژان ایو لودریان کے بیانات پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روس کا مقصد دہشت گردوں کی نابودی ہے اور یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
فرانسیسی وزیر دفاع نے کہا تھا کہ پیرس کو یقین نہیں ہے کہ روس داعش کے ساتھ مقابلے کے لئے فضائی حملے کر رہا ہے۔
اس کے مقابلے میں روسی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا ہے کہ روس کا واحد ہدف شام میں زیادہ سے زیادہ دہشت گردوں کو ہلاک اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا ہے۔
کوناشنکوف نے تاکید کی کہ روس دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے کا ذمےدار نہیں ہے بلکہ اس کے ذمےدار وہ ہیں جو آج روس پر تنقید کر رہے ہیں اور سنہ دو ہزار گیارہ سے مشرق وسطی میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرتے چلے آ رہے ہیں۔
روس نے شام کی حکومت کی درخواست پر تیس ستمبر سے اس ملک میں داعش اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کر رکھے ہیں۔
اس کے باوجود بعض یورپی ممالک روس پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ شام کی حکومت کے مخالف گروہوں اور غیر فوجی اہداف پر حملے کر رہا ہے۔
ایسا نظر آتا ہے کہ فرانسیسی وزیر دفاع نے شام میں روس کی کارکردگی کے آگے سوالیہ نشان لگانے کے علاوہ شام میں داعش مخالف اتحاد کی کمزور کارکردگی کو جائز ظاہر کرنے کے لئے روس پر الزامات لگائے ہیں۔
واضح رہے کہ فرانس بھی داعش مخالف اتحاد کا رکن ہے۔ اگرچہ فرانس نے تیرہ دسمبر کو پیرس میں داعش کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ، کہ جن میں ایک سو تیس سے زائد افراد مارے گئےتھے، اعلان کیا کہ وہ اب پہلے سے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ داعش کا مقابلہ کرے گا۔
لیکن اس کے باوجود فرانسیسی لڑاکا طیاروں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر جو حملے کئے ان کا موازنہ روسی لڑاکا طیاروں کے روزانہ کے حملوں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ روس مختلف دہشت گرد گروہوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے جبکہ فرانسیسی اور امریکی حکام کا دعوی ہے کہ صرف داعش کے ٹھکانوں پر حملے کئے جانے چاہئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یورپ والے شام میں حکومت مخالف مسلح گروہوں خصوصا ان گروہوں کی مسلسل حمایت کر رہے ہیں جن کو وہ سیکولر قرار دیتے ہیں۔
اور ان گروہوں پر حملے کو وہ شام کے صدر بشار اسد کی حکومت کی تقویت شمار کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے کے جاری رہنے کو اپنے حمایت یافتہ گروہوں کی نابودی کے مترادف جانتے ہیں۔ خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ تین ماہ قبل سے شروع ہونے والے روس کے حملوں کے ختم ہونے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شام میں روس کے فضائی حملوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ حملے وسیع پیمانے پر ہو رہے ہیں اور ان کے لئے کوئی مدت بھی مقرر نہیں کی گئی ہے جیسا کہ روس اور شام کے درمیان چھبیس اگست سنہ دو ہزار پندرہ کو ہونے والے معاہدے کے بعض حصوں کے مطابق روس کے لڑاکا طیارے غیر معینہ مدت تک شام میں ٹھہر سکتے ہیں۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ روسی لڑاکا طیاروں کے حملے جاری رہنے کے لئے کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی ہے اور شام میں روس کی فوجی موجودگی " آزاد " یا اوپن (open) شمار کی جاتی ہے۔
یقینی طور پر یہ مسئلہ یورپی حکام اور ان کے عرب اتحادیوں کےلئے خوش آئند نہیں ہے۔
اس کے علاوہ یورپ والے بار بار اس بات کو دہراتے ہیں کہ روس داعش کے دہشت گردوں کو اپنے حملوں کا زیادہ نشانہ نہیں بناتا ہے اور وہ زیادہ تر حکومت مخالف دوسرے گروہوں پر بمباری کرتا ہے۔