افغانستان میں بے یقینی کی صورتحال
چار فریقی نشسوں کے باوجود افغانستان میں بدامنی بدستور جاری ہے۔
اسلام آباد اور کابل میں افغانستان کے تعلق سے امریکہ، چین، پاکستان اور افغانستان کی شراکت سے چار فریقی نشستوں کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ افغانستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی لیکن افغانستان کے حالات اور تشدد آمیز جھڑپوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان بدستور بدامنی اور تشدد کی سمت میں بڑھ رہا ہے۔
طالبان کے حملے صوبہ ہرات تک بڑھ گئے ہیں اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر چار سدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر طالبان کا حالیہ حملہ نیز تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کی سرگرمیاں منجملہ ان مسائل میں شامل ہیں جن سے سیکورٹی کے لحاظ سے افغانستان کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔
پاکستان اور افغانستان نے معاہدہ کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر حملے کےلئے اپنی سرزمینوں کے استعمال کئے جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں ان عسکریت پسند گروہوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات بھی کریں گے جو افغان امن عمل کے مخالف ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے حملوں میں تیزی آنااور اسلام آباد میں افغانستان کے ناظم الامور کا وزارت خارجہ طلب کیا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان و افغانستان میں کشیدگی جاری ہے بلکہ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ افغانستان میں بدستور بحران اور بدامنی جاری ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کا دعوی ہے کہ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ دہشتگردوں نے باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرنے میں افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک کے مواصلاتی نیٹ ورک سے ضروری کوآرڈی نیشن انجام دینے کے لئے استفادہ کیا ہے۔ افغانستان میں بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں امن و امان کے لحاظ سے آنے والی تبدیلیاں پاکستان کے دوغلی چالوں کا نتیجہ ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ جب تک چار فریقی مذاکرات میں پاکستان کو افغانستان میں اپنے اھداف حاصل نہیں ہوجاتے پاکستان افغانستان میں امن قائم نہیں ہونے دے گا۔ افغانستان میں پاکستان کے اھداف اسلام آباد کے فائدے میں ڈیورینڈ لائن کے واضح کئےجانے، افغانستان سے آنے والے دریاؤں کے پانی کے جاری رہنے کی ضمانت ملنا اور افغانستان میں ہندوستان کے اثرورسوخ کاراستہ بند کرنے سے عبارت ہیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اسلام آباد اور کابل میں چار فریقی مذاکرات کی دو نشستوں سے پاکستان کے مطالبات کے حصول کا کوئی راستہ نہیں نکلا ہے اور حکومت کابل اسی وجہ سے پاکستان کو کوئی مراعات دینا نہیں چاہتی ہے لھذا حکومت اسلام آباد خبیر پختونخوا میں یونیورسٹی پر حملے کا سہارا لے کر افغانستان پر دباؤ ڈال رہی ہے اور ممکن ہے کہ اس امر سے چار فریقی نشستوں کا سلسلہ بھی متاثر نہ ہوجائے۔
بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہےکہ طالبان گروہ پاکستانی حکومت کا آلہ کار ہے اور پاکستان کی حکومت کابل حکومت سے مراعات لینے کے لئے طالبان کے ذریعے اس پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ اسی بنا پر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ چار فریقی نشستیں طالبان کو افغانستان کے امن مذاکرات میں شریک کرنے کی ترغیب دلانے سے زیادہ افغان حکومت کو اس بات پر مائل کرنے کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان کے مطالبات پر توجہ کرے تاکہ پاکستان کو افغانستان کے امن عمل میں مدد کرنے کی ترغیب دلائی جاسکے۔
بہر صورت افغانستان میں استحکام و حفاظت کونسل نے ملک کے مغربی علاقوں میں داعش سے مقابلہ کرنے کے لئے جو اپیل کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں بدامنی اور تشدد جاری رہنے پر بدستور تشویش پائی جاتی ہے اور طالبان کے حملوں نیز کابل اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی کےجاری رہنے سے افغانستان کے حالات مزید بحرانی ہوجائیں گے۔ ادھر افغان عوام کو یہ توقع ہے کہ طالبان ہتھیار ڈال کر نیز حکومت پاکستان دہشتگردوں کے خلاف سخت پالیسیاں اپنا کر افغانستان میں قیام امن کے عمل میں مدد کرے گا۔