افغانستان کے اعلی سطحی فوجی وفد کا دورۂ پاکستان
افغانستان کے اعلی سطحی فوجی وفد کے دورۂ پاکستان سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دونوں ممالک باہمی فوجی اور سیکورٹی تعاون میں توسیع کو اہمیت دیتے ہیں۔
افغانستان کا فوجی وفد اس ملک کے آٹھ اعلی فوجی کمانڈروں پر مشتمل ہے اور اس وفد کی سربراہی محمد شریف یافتعلی کر رہے ہیں۔ اس وفد نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستانی فوج کے اعلی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمان سے ملاقات کی۔
پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ اس ملاقات میں دونوں ملکوں کی سرحدوں پرسیکورٹی کے امور سے متعلق بات چیت ہوئی اور فریقین نے سرحدوں پر سیکورٹی کی تقویت کی ضرورت پر تاکید کی۔ افغانستان کی قومی فوج کے اعلی سطحی وفد نے ایسی حالت میں پاکستان کا دورہ کیا ہے کہ جب پشاور کے قریب واقع باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملے کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہاہے کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی۔
پاکستان سے شائع ہونے والے اخبار نوائے وقت میں حال ہی میں کہا گیا ہے کہ اگر افغانستان نے باچاخان یونیورسٹی پر حملے میں ملوث عناصر کی شناخت کے سلسلے میں تعاون نہ کیا تو اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ پاکستان کابل اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکراتی عمل سے نکل جائے گا۔ افغان حکام نے پاکستان کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہےکہ باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایسی حالت میں افغانستان امن عمل کے نقشہ راہ کے چار فریقی مذاکرات کے تیسرے مرحلے کے انعقاد کی تیاری کر رہے ہیں کہ جب ان کے باہمی اختلافات کا حل کیا جانا بہت اہم اور توجہ طلب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے باچاخان یونیورسٹی پر حملے کے بعد کابل حکومت کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے اور وہ اسی ذریعے سے افغانستان کی سرزمین میں مسلح مخالفین کے مقابلے کے لئے افغان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب افغان حکومت افغانستان کی سرزمین سے پاکستانی حکومت کے ٹھکانوں کے نشانہ بنائے جانے کو بارہا مسترد کر چکی ہے۔ ان حالات میں سیاسی مبصرین کے نزدیک چونکہ افغانستان کے معاملے کو پاکستانی فوج خصوصا اس ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نمٹا رہی ہے اس لئے افغانستان کے فوجی وفد کا دورۂ پاکستان بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ایسا نظر آتا ہے کہ فوجی حکام سیکورٹی مسائل کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور افغانستان کے اعلی سطحی فوجی وفد کے دورۂ اسلام آباد سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ افغان فوج پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کے لئے آمادہ ہے اور افغانستان کی فوج شدت پسندوں اور دہشت گرد گروہوں کے مقابلے کے لئے اپنی پوری کوشش کر رہی ہے۔ افغانستان کا فوجی وفد اپنے ان اقدامات کی وضاحت کرنے کے ساتھ ساتھ باہمی تعاون پر بھی تاکید کے لئے کوشاں ہے۔
بہرحال سیاسی مبصرین کے نزدیک افغانستان اور پاکستان کی مشترکہ سرحدوں کی سیکورٹی اور دہشت گردوں کے مقابلے کے لئے دونوں ممالک کی افواج کا باہمی تعاون ضروری ہے اور افغانستان کے اعلی سطحی فوجی وفد کے دورہ پاکستان سے اس کا راستہ ماضی کی نسبت زیادہ ہموار ہوسکتا ہے۔