Mar ۱۷, ۲۰۲۵ ۱۶:۰۶ Asia/Tehran
  • ٹرمپ کے خط کا جواب مکمل جائزے کے بعد، امریکہ سے موصول ہونے والے پیغامات انتہائی متضاد

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے خط و کتابت پر ہمارا جواب، مکمل جائزہ لینے کے بعد مناسب طریقے سے دیا جائے گا۔

سحرنیوز/ایران: ایران کی وزارت خارجہ کےترجمان نے شمسی سال چودہ سو تین کی اپنی آخری ہفتہ وار پریس کانفرنس میں، ڈونلڈ ٹرمپ کے خط کی تفصیلات کے حوالے سے پہلے سوال کے جواب میں کہا کہ اس پیغام کو ہم ابلاغیاتی بنانا نہیں چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں جو کچھ شائع ہوا ہے وہ زیادہ تر قیاس آرائیوں پر مبنی ہے، تاہم خط کا متن امریکی صدر کے عام بیانات سے جدا نہیں ہے اور اس خط و کتابت پر ہمارا ردعمل تحقیقات مکمل کرنے کے بعد مناسب طریقے سے دیا جائے گا۔

ایران کی وزارت خارجہ کےترجمان اسماعیل بقائی

اس سوال کے جواب میں کہ یمن پر فوجی حملوں کے بعد امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف کیے جانے والے دعووں اور دھمکیوں پر ایران کا ردعمل کیا ہے، بقائی نے کہا کہ کہ ہم ایران کی علاقائی سالمیت، سلامتی اور قومی مفادات کے خلاف کسی بھی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دیں گے اور اس میں لیت و لعل سے کام نہيں لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یمن کے شجاع و بہادر عوام کے اقدامات کو دوسروں سے منسوب کرنا گزشتہ بیس مہینوں میں اپنی ناکامیوں کی تلافی کا ایک طریقہ ہے۔ یمنی عوام اور یمنی حکومت آزادانہ طور پر فلسطین کی حمایت میں فیصلہ کر رہے ہيں اورجو اقدامات ضروری سمجھتے ہیں اسے انجام دے رہے ہيں-

یمن پر امریکی فوجی حملے کے حوالے سے ایک اور سوال کے جواب میں ایران کی وزارت خارجہ کےترجمان نے کہا کہ یمن پر امریکی فوجی حملہ، جو بدقسمتی سے پہلی بار نہیں ہے، یقیناً ایک جرم ہے اور اس کی مذمت کی جاتی ہے کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے تمام اصولوں اور معیارات کی خلاف ورزی ہے اورعالمی برادری، اسلامی ممالک اور اسلامی تعاون تنظیم کو اس سلسلے میں فوری اقدام کرنا چاہیے۔

امریکہ کی طرف سے بھیجے گئے پیغام کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ سے موصول ہونے والے پیغامات انتہائی متضاد ہیں۔ یعنی ایک طرف مذاکرات اور بات چیت کے لیے آمادگی کا اظہار کیا جا رہا ہےتو دوسری طرف مختلف تجارتی اور پیداواری شعبوں پر بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ بنیادی طور پر، سفارتی گفت و شنید کے آداب اور تقاضے ہوتے ہیں اور اس میں اہم یہ ہےکہ آپ مدمقابل کے مفادات اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں اور مساوی نقطہ نظر سے دیکھیں، امریکہ نے گزشتہ 10-15 برسوں میں اپنے کسی بھی وعدے پر عمل نہیں کیا ہے اور وہ مذاکرات کو محض ایک سیاسی، تشہیراتی اور نفسیاتی ہتھکنڈہ کے طور پر استعمال کرتا ہے، اس کا مقصد مسائل کا حل نہیں ہوتا چنانچہ امریکہ کے اس متضاد رویے کے مقابلے ہمارا بھی جواب بھی واضح ہے -

 

ٹیگس