Jan ۳۱, ۲۰۱۶ ۱۶:۲۲ Asia/Tehran
  • روسی اور ترک حکام کے درمیان لفظی جنگ نئے مرحلے میں داخل

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کی بنا پر روس کو خبردار کرتے ہوئے ماسکو سے کہا ہے کہ وہ ہر طرح کے غیر ذمےدارانہ اقدام سے اجتناب کرے۔

ترکی کے صدر کا کہنا ہے کہ روسی لڑاکا طیاروں نے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔ نیٹو نے بھی ترکی کی فضائی حدود کی دوبارہ خلاف ورزی کئے جانے پر مبنی اس ملک کے دعوے کے بعد کہا ہے کہ ماسکو کو ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی روک تھام کے لئے تمام تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ نیٹو نے روس سے اپیل کی ہے کہ وہ شام میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کے دوران ترکی کی فضائی حدود کا مکمل احترام کرے۔

واضح رہے کہ انقرہ حکومت نے کہا ہے کہ روسی لڑاکا طیاروں نے گزشتہ جمعے کے دن دوبارہ ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔اس کے بعد نیٹو اور ترکی نے روس کو خبردار کیا۔ ترکی کی وزارت خارجہ نے انقرہ میں روس کے سفیر کو طلب کر کے کہا کہ روس کے لڑاکا طیاروں کی جانب سے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے برے نتائج برآمد ہوں گے اور ان نتائج کی ذمے داری روس پر عائد ہوگی۔

روسی لڑاکا طیاروں کے ذریعے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر مبنی ترک حکام کے دعووں کے بعد ترکی کے خبری ذرائع نے ترکی کی فضائیہ کو چوکس کرنے کی خبر دی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ترکی کی فضائیہ نے ایئربیسز میں اورنج الرٹ جاری کر دیا ہے۔ ترکی کی فضائیہ کی کمان نے ترک لڑاکا طیاروں کے پائلٹوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے دوسرے ممالک کے ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کو اپنے حملے کا نشانہ بنائیں اور اس سلسلے میں کسی بھی دوسرے حکم کا انتظار نہ کریں۔

اسی وجہ سے ترکی نے بہت سے ایف سولہ طیاروں کو دیار بکر کی ایئربیس پہنچا دیا ہے اور انقرہ، دیار بکر، بالیک اسیر اور آماسیہ کی ایئربیسوں پر ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔

روس کے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ترکی روسی لڑاکا طیاروں کے ذریعے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کو جو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تکفیری اور دہشت گرد گروہ داعش کے مقابلے میں روسی فوجیوں کو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں جس کی وجہ سے شام کی فوج کو بھی مختلف مسلح گروہوں کے مقابلے میں زمینی جنگ میں کامیابیاں ملی ہیں۔

روسی حلقوں کا کہنا ہے کہ شام میں دہشت گردوں کی شکستوں کے بعد ترکی نے سیاسی اور سفارتی میدانوں میں اپنی سرگرمیاں تیز اور نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے اور ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوغان کے حالیہ دورۂ سعودی عرب کا، کہ جس کا مقصد خطے کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لینا بتایا گیا تھا، بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جنیوا مذاکرات میں آنے والے مختصر سے وقفے کے بعد ترکی نے روس پر فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر اس اجلاس سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔

بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ بشار اسد کی حکومت کے مخالف مسلح اور سیاسی گروہوں کے گوناگوں ہونے اور ان گروہوں کے حامی علاقائی اور علاقے سے باہر کے ممالک کے نظریات میں پائے جانے والے اختلافات کے پیش نظر بعید نظر آتا ہے کہ جنیوا اجلاس شام کے عوام اور اس اجلاس کو بلانے والوں کے لئے قابل توجہ ثمرات کا باعث بنے گا۔

یہی وجہ ہے کہ انقرہ بھی چونکہ بشار اسد کے مخالف گروہوں کے حامیوں میں شامل اور شام میں سرگرم تکفیری گروہوں کا حامی ہے اس لئے وہ اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی جیسے موضوعات اٹھا کر موجودہ حالات کا رخ بدلنے اور ان حالات کو ایک نئی ڈگر پر ڈالنے کے درپے ہے تاکہ خطے میں اپنی خارجہ پالیسی کو نئے انداز میں پیش کرنے کا موقع حاصل کر سکے۔ اس کے علاوہ ایسا نظر آتا ہے کہ ترکی روس اور یورپی حکومتوں کے تعلقات میں کشیدگی لانے کے لئے بھی کوشاں ہے تاکہ روس کے مقابلے میں مغربی حکومتوں اور نیٹو کی سیاسی حمایت کے علاوہ زیادہ سے زیادہ مراعات لینے کی صلاحیت بھی حاصل کر سکے۔

ٹیگس