ہندوستان اور چین کے تعلقات
ہندوستان اور چین نے محدود پیمانے پر فوجی مشقیں کی ہیں۔
ہندوستانی وزارت دفاع کے بیان کے مطابق ہندوستان اور چین نے پیر آٹھ فروری کو لداخ کے مشرقی علاقے میں مشترکہ فوجی مشقیں انجام دی ہیں۔ان فوجی مشقوں کاھدف دونوں ملکوں کی سرحدوں پر جھڑپوں کی روک تھام کرنا ہے۔ اس کے بعد ہندوستان کی وزارت دفاع نے ایک اور بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ یہ مشترکہ فوجی مشقیں کامیاب رہی ہیں۔ اس کے باوجود ہندوستانی حکام نے ہندوستانی سرزمین بالخصوص لداخ کے علاقے میں چینی فوجیوں کےگھس آنے پر اپنی تشویش نہیں چھپائی ہے اور کہا ہےکہ چین کے فوجی وقتا فوقتا ہندوستان میں گھس آتے ہیں۔
ہندوستان اور چین جو ہمسایہ ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ممالک بھی ہیں ان کے درمیان تقریبا چار ہزار کلومیٹر لمبی مشترکہ سرحد ہے اور ان ہی سرحدوں کے تعلق سے ان کے درمیاں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان ہی اختلافات کی بنا پر انیس سو باسٹھ میں ہمالیا کے علاقے میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بھی ہوچکی ہے۔ اروناچل پرادیش، لداخ اور سکم اور آکسائی سرحدی علاقے ہیں کہ جن پر تقریبا چھے دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات چلے آرہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعات پر مذاکرات کے سولہ دور ہوچکےہیں جس سے معلوم ہوتا ہےکہ چین اور ہندوستان کے حکام اس تاریخی مسئلے کو حل کرنے کا پختہ سیاسی عزم رکھتے ہیں۔
ہندوستان اور چین کے درمیان لداخ اور لو کے علاقوں میں چھوٹی سطح پر مشترکہ فوجی مشقیں اس بات کی نشاندھی کرتی ہیں کہ دونوں ممالک سرحدی مسائل حل کرنے کےلئے تعاون کرنے کا رجحان رکھتے ہیں اور اب دیگر حلقوں کی اشتعال انگیز اور خاص اھداف پر مبنی تجزیوں پر دھیان دینے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے ایشیا کے دو بڑے ملکوں کا قریب آنا اور حالیہ برسوں میں ان کے درمیان تقریبا ستر ارب ڈالر کا تجارتی لین دین یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس طرح کا تعاون اختلافات پر بھاری پڑسکتا ہے اور اختلافات کو فرعی مسئلے کی حیثیت مل سکتی ہے۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہےکہ چین کے ساتھ تجارتی لین دین میں ہندوستان چالیس ارب ڈالر کے خسارے میں ہے لھذا چین چاہتا ہےکہ ہندوستان کی دواؤں اور زرعی اشیاء پر اپنی منڈیاں کھول کر اس کمی کو پورا کردے۔ اس بنا پر ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے تعاون میں توسیع اور براعظم ایشیا کی ترقی میں اس کے اثرات کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ ہندوستان اور چین بریکس تنظیم کے بھی رکن ہیں اور روس، برازیل اور جنوبی افریقہ کے ساتھ ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت کی حیثیت سے سیاست اور اقتصادی میدان میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ان امور کے باوجود ہندوستانی سرزمین کے بعض حصوں پر چینی فوجیوں کی کبھی کبھی ہونے والی دراندازی کے بارے میں ہندوستان کے اعلی ترین عھدیدار کی تشویش کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان اور چین کے درمیان تقریبا چار ہزار کلو میٹر لمبی سرحدوں کو ابھی معین نہیں کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے بعض اوقات چینی فوجی ہندوستان میں گھس آتے ہیں۔
ایک سال قبل چـین کے صدر اور اس ملک کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل شی جین پینگ کے ہندوستان کے دورے کے موقع پر چینی فوجیوں نے ہندوستان میں دراندازی کی تھی جس پر ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے چینی صدر سے ملاقات میں کہا کہ نئی دہلی سرحد پرہونے والے اس طرح کے واقعات سے تشویش میں مبتلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک اپنی سرحدوں کو واضح کردیں۔ شی جی پینگ نے اطمینان کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک پختہ عزم سے سرحدی مسائل حل کرسکتے ہیں۔
ہندوستان اور چین نے دوہزار بارہ میں ایک مشترکہ ادارہ قائم کیا تھا تاکہ دونوں ملکوں کے سرحدی تنازعات واضح ہوجائیں، اس ادارے کے قیام سے معلوم ہوتا ہے کہ چین اور ہندوستان اس بات کی اجازت نہیں دینا چاہتے کہ سرحدی اختلافات ناقابل حل مسائل میں تبدیل ہوجائیں۔ نئی دہلی اور بیجنگ نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ بڑے بڑے اقتصادی منصوبوں کو سرحدی اختلافات کی وجہ سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چین اور ہندوستان کے تعلقات کے سلسلے میں حقیقت پسندانہ تجزیہ یہی ہے کہ دونوں ملکوں نے حالیہ برسوں میں سیاسی اعتماد سازی اور مختلف سطح پر تعاون جاری رکھنے کے لئے مذاکرات جاری رکھے ہیں۔ پیر کو ہونے والی مشترکہ فوجی مشقیں اسی دعوے کا ثبوت ہیں۔