آل سعود کی بہیمت اور بربریت جاری
آل سعود نے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کےلئے عوام پر تشدد بڑھا دیا ہے۔
آل سعود کی فوج نے یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کے مقابلے میں اپنی شکست فاش اور اپنے اھداف کے حصول میں ناکامی سے رائے عامہ کو منحرف کرنے نیز ارض وحی کے عوام کو اپنے خلاف قیام کرنے سے روکنے کے لئے ان کے درمیان رعب و وحشت پھیلانے کی غرض سے اپنی تشدد آمیز پالیسیاں تیزکردی ہیں۔
سعودی عرب کی فوج نے حال ہی میں مہلک ترقی یافتہ ہتھیاروں اور توپ کے گولوں سے مشرقی سعودی عرب کے شہر العوامیہ میں لوگوں کے گھروں پر وحشیانہ حملے کئے ہیں۔ اس شہر میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ آل سعود کے کارندوں کے ان حملوں میں ایک شخص شہید اور چھبیس زخمی ہوئے ہیں۔ آل سعود کے فوجی کارندوں نے مسجد الجبل کا محاصرہ کرکے اس کے اطراف فوجی اور بکتر بند گاڑیاں تعینات کردی ہیں۔ آل سعود کے وحشی کارندوں نے العوامیہ شہر سے قریب مضر نامی اسپتال کا بھی محاصرہ کرلیا ہے۔
آل سعود کے ہاتھوں ارض وحی کے باسیوں بالخصوص شیعہ مسلمانوں پر دباؤ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے اور سعودی فوجی شہر قطیف کے نہتے عوام کو اپنے شدید ترین حملوں کا نشانہ بنارہے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب انسانی حقوق کا قبرستان ہے۔ ان تنظیموں اور کارکنوں نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری سعودی عرب میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کرنے کےلئے موثر اقدامات کرے۔
آل سعود کی حکومت نے دوہزار گیارہ سے شروع ہونے والے حکومت مخالف پرامن احتجاج کو بڑی بے رحمی سے کچل کر عوامی قیام کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے لیکن آل سعود کی ان تشدد آمیز پالیسیوں سے عوام کے ارادے میں کوئی خلل نہیں آیا ہے اور وہ اپنے ملک میں جمہوری حکومت لانے کے ھدف کو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ آل سعود کا نظام حکومت موروثی ہے اور ارض وحی کے باشندوں کو ملک کے امور کا انتظام چلانے اور قانون سازی میں ہر طرح کی شرکت سے محروم رکھا گیا ہے۔ آل سعود مکمل طرح سے حجاز کے زیر زمیں ذخائر پر قابض ہے اور اسے کسی بھی ادارے کے سامنے اپنی لوٹ کھسوٹ کا حساب دینا نہیں پڑتا۔ آل سعود کی قرون وسطی کی حکومت کے ان اقدامات کی وجہ سے آل سعود کے خلاف عوم اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور احتجاج کررہے ہیں۔
ارض وحی کے عوام کے روز افزون بڑھتے ہوئے احتجاج سے یہ ثابت ہوتا ہے وہ آل سعود کی تشدد آمیزنیز فریبی اقدامات سے مرعوب نہیں ہوئے ہیں بلکہ اپنے ملک میں مختلف شعبوں میں بنیادی تبدیلیاں لانے اور ظلم و ستم مٹانے پر تاکید کررہے ہیں۔
قابل ذکرہے کہ سعودی عرب میں جمہوریت کی علامتیں جیسے انتخابات، مختلف سیاسی پارٹیاں اور میڈیا کی آزادی، کا دور دور تک نام و نشان تک نہیں ہے۔ آل سعود کی حکومت موروثی ہے اور عوام کو اپنے ملک کا انتظام چلانے اور قانون سازی میں کسی طرح کا کردار حاصل نہیں ہے یہ ایسے حالات میں ہے کہ سعودی عرب میں سیاسی حالات سے پتہ چلتا ہے کہ اقتدار میں آل سعود کے مہروں کے بدلنے سے اس بدوی اور ظلم و استبداد پر استوار حکومت کی بنیادی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
سعودی عرب میں شاہ عبداللہ کی موت کے بعد اور شاہ سلمان کی فرمانروائی میں انسانی حقوق کی پامالی میں شدت آنا اور مستقبل قریب میں ان پالیسیوں کے تبدیل ہونے کی امید نہ ہونے کی وجہ سے یہ تشویشیں بڑھتی جارہی ہیں کہ مکے اور مدینے کی سرزمین پر آل سعود کے ہاتھوں مزید وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی دیکھنے کو ملے گی۔