سلامتی کونسل سے سعودی عرب پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ
یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسماعیل ولد الشیخ نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں یمن کے مختلف صوبوں کے غیر فوجی علاقوں پر سعودی حملوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے سعودی عرب پر دباؤ ڈالنے اور یمنی شہریوں کی حمایت کرنے کا مطالبہ کیا۔
سعودی عرب نے گذشتہ سال چھبّیس مارچ کو غریب ترین عرب ملک یمن پر اپنے وحشیانہ حملوں کا آغاز کیا اور اس کے یہ حملے بدستور جاری ہیں۔ یہ جنگ نہ صرف یہ کہ غیر قانونی ہے کہ جس کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا بلکہ بین الاقوامی عدالت کے ضابطے کے مطابق تین قسم کے جرائم، یعنی امن کے خلاف جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کی بھی مکمل مصداق ہے۔ یمن میں اس ملک کے مستعفی صدر منصور ہادی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لئے اس ملک پر مسلط کی جانے والی سعودی عرب کی جنگ، اس اعتبار سے بھی کوئی جواز نہیں رکھتی کہ منصور ہادی کی صدارت کی مدّت میں ایک سال کی توسیع کئے جانے کا وقت بھی اب ختم ہو گیا ہے اور منصور ہادی نے ایسی حالت میں ریاض فرار کرنے کا اقدام کیا تھا کہ انھوں نے یمن کی صدارت کے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ بنابریں منصور ہادی، اقتدار میں آنے کا کوئی جواز ہی نہیں رکھتے کہ سعودی عرب انھیں طاقت کے بل بوتے پر اقتدار میں لا کر اس بات کا دعوی کرے کہ اس نے یمن میں قانونی جواز کی بحالی کا اقدام کیا ہے۔
دوسری جانب جنگ یمن سے سعودی مقاصد سے قطع نظر اس جنگ میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے جو رویہ اختیار کیا گیا وہ، امن کے خلاف جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا مکمل مصداق ہے۔ اور یمن پر سعودی عرب کے وحشیانہ حملوں میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات سے سعودی جرائم کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔ یمن پر سعودی عرب کی جارحیت کے نتیجے میں اب تک آٹھ ہزار سے زائد یمنی شہری شہید اور چھبّیس ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور انسان دوستانہ امور کے کوآرڈینیٹر اسٹیفن او برائن کے مطابق جنگ یمن کے آغاز سے اب تک دو ہزار سے زائد یمنی بچّے شھید و زخمی ہو چکے ہیں جب کہ صرف رواں عیسوی سال کے آغاز سے اب تک نوّے یمنی بچّے مارے جا چکے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں یمنی شہری، اندرون و بیرون ملک دربدر ہوئے ہیں اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یمن کی ڈھائی کروڑ کی آبادی میں سے دو کروڑ، دس لاکھ افراد کو اس وقت خوراک اور پینے کے پانی کی شدید قلّت کا سامنا ہے۔
یہ ایسے میں ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے یمن کے مکمل محاصرے کی بناء پر یمنی شہریوں کو امداد پہنچائے جانے کے تمام راستے بھی بند ہیں۔ یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسماعیل ولد الشیخ نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ، یمنی عوام کو مسلسل امداد پہنچائے جانے کے لئے غیر مشروط طور پر تمام راستے کھلوائے اور جارحیت بند کرانے کے ساتھ ساتھ امن مذاکرات شروع کرانے کی کوشش کرے۔ یمن پر سعودی جارحیت بین الاقوامی عدالت کے ضابطے کے مطابق تین قسم کے جرائم کے ارتکاب کا مصداق ہونے کی ایک اور وجہ، یہ ہے کہ سعودی لڑاکا طیاروں کے حملوں کے نتیجے میں اب تک یمن کی اسّی فی صد سے زائد بنیادی تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں جن میں تعلیمی، پانی، بجلی اور طبّی مراکز شامل ہیں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ یمن پر سعودی عرب کی جاری جارحیت میں زیادہ ترعام شہری مارے جا رہے ہیں جن میں عورتیں اور بچّے بھی شامل ہیں۔ ایسی صورت میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے، کہ جس پر اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے، یمن پر سعودی عرب کی آل سعود حکومت کے وحشیانہ جرائم بند کرانے کے لئے اب تک کوئی اقدام نہیں کیا ہے جس کی بناء پر وہ خود بھی ان جرائم کے ارتکاب میں شریک سجھی جا رہی ہے۔