Mar ۰۷, ۲۰۱۶ ۱۹:۲۷ Asia/Tehran
  • فرانس میں سعودی ولیعہد کو نیشنل ایوارڈ دیئے جانے پر منفی ردعمل

فرانس کے صدر فرانسوا اولینڈ کی جانب سے سعودی ولیعہد محمد بن نائف کو فرانس کے قومی ایوارڈ لیگن آف آنر سے نوازے جانے پر سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا میں وسیع پیمانے پر منفی ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔

پارلیمنٹ میں سوشلسٹ پارٹی کے نمائندے زرار بٹ نے ایک بیان میں تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ اخلاق اور سیاسی و اقتصادی مصلحتوں کو داؤ پر ہر گز نہیں لگایا جانا چاہئے۔ نیشنل فرنٹ کے نائـب سربراہ فلورین فیلیپو نے بھی سعودی ولیعہد محمد بن نائف کو فرانس کے قومی ایوارڈ سے نوازے جانے کو بے عزّتی کے اقدام سے تعبیر کیا ہے۔

فرانسیسی محقق رافیل گلوکسمین نے بھی محمد بن نائف کو قومی ایوارڈ دیئے جانے سے متعلق اپنے ملک کے صدر کے اقدام کو وہابیت اور عورت مخالف شخص کو انعام دیئے جانے سے تعبیر کیا۔ سوشل میڈیا پر بھی فرانسیسی صدر کے اس اقدام کو بہت زیادہ شرمناک قرار دیا گیا ہے۔ بعض افراد نے اپنے پیغامات میں فرانس کے اس اہم ایوارڈ کی وقعت گرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ اور فرانس میں ٹوئٹر پر فرانسیسی صدر کے اس اقدام کو قومی ایوارڈ کو فروخت کر دیئے جانے اور سعودی عرب اور فرانسیسی حکام کے درمیان مالی سودے بازی کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔

دو ماہ قبل فرانس، ان ملکوں میں سے ایک تھا جس نے سعودی عرب میں سینتالیس قیدیوں منجملہ اس ملک کے نامور شیعہ مسلمان عالم دین شیخ باقر النمر کو سزائے موت دیئے جانے کے اقدام پر شدید تنقید کی تھی۔ سعودی عرب پر فرانس کی تنقید اور سعودی ولیعہد کو قومی ایوارڈ سے نوازے جانے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ فرانسیسی حکام کی نظر میں انسانی حقوق کا مسئلہ، انسانی حقوق کے دفاع اور دہشت گردی کے خلاف مہم کے دعووؤں کے تناظر میں اپنی پالیسیوں کی توجیہ پیش کرنے کے لئے مکمل طور پر صرف ایک ہتھکنڈہ بنا ہوا ہے۔ فرانس کا یہ قومی ایوارڈ صرف فرانسیسیوں سے مخصوص نہیں ہے مگر کسی بھی غیر ملکی کو فرانس کی خدمت یا اس کی امنگوں کا دفاع کرنے کی شرط پر دیا جاتا ہے۔

فرانس کے بنیادی آئین میں انسانی حقوق کا دفاع اور شہری آزادی، ایسے نکات ہیں کہ جن پر فرانسیسی امنگوں کی حیثیت سے تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی واس نے محمد بن نائف کو فرانس کے نیشنل ایوارڈ سے نوازے جانے کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ان کی کوششوں کے نتیجے سے تعبیر کیا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی عرب کی پوری تاریخ میں تشدد و انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ترویج میں سعودی نظام حکومت کی ماہیت عالمی اور خاص طور سے مغربی رائے عامہ پر کبھی واضح نہیں رہی ہے یہاں تک کہ یورپی پارلیمنٹ اور بعض یورپی اداروں نے اپنی انسان دوستانہ ساکھ کا تحفظ کرنے کے لئے گذشتہ ایک سال کے دوران یمن پر بمباری اور اس ملک کے مظلوم عوام کا وحشیانہ طریقے سے قتل عام کرنے کی بناء پر سعودی عرب کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی لگائے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ہتھیاروں کے کنٹرول کے ادارے آکسفام نے چھبّیس فروری کو ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے مختلف ملکوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سعودی عرب کو اربوں ڈالر کے ایسے مہلک ہتھیار فروخت کرنے سے باز آجائیں جو یمنی عوام کے خلاف استعمال کئے جا رہے ہیں۔ اس ادارے نے فرانس، جرمنی، اٹلی، مونٹی نگرو، ہالینڈ، اسپین، سویڈن، سوئزرلینڈ، ترکی، برطانیہ اور امریکہ کا نام، ایسے ملکوں کی حیثیت سے پیش کیا ہے کہ جنھوں نے دو ہزار پندرہ میں سعودی عرب کو پـچیس ارب سے زائد ڈالر کے ہتھیار فروخت کئے ہیں۔ امریکہ و فرانس سمیت تمام مغربی حکومتوں نے، سعودی حکمرانوں کے ظلم و استبداد اور علاقے نیز پوری دنیا میں تشدد و انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ترویج میں سعودی عرب کے وہابی حکمرانوں کے کردار سے مکمل آگاہی رکھنے کے باوجود، آل سعود حکومت سے سیاسی، اقتصادی اور فوجی تعلقات کا مکمل تحفظ کیا ہے۔

فرانس اور اس کے دیگر یورپی اتحادی ممالک، اگر واقعی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ہیں تو بس اتنا کافی ہے کہ وہ سعودی عرب کو کنٹرول کریں۔ یہ سعودی وہابی ہی ہیں کہ جنھوں نے اسلام کا غیر حقیقی اور تشدد پسند چہرہ پیش کر کے دین اسلام کی انسان دوستانہ، آزاد منشی اور انصاف پسندانہ ماہیت کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے اور مغربی حکومتیں، سعودی وہابیوں کے اس قسم کے اقدامات کو دانستہ طور پر دین اسلام اور تمام مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ چنانچہ فرانسیسی صدر کی جانب سے سعودی ولیعہد کو قومی ایوارڈ دیئے جانے کے اقدام نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ فرانس، انتہا پسندی کے خلاف مہم میں سنجیدہ نہیں ہے اور وہ بدستور تشدد و انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ترویج کرنے والے اقدامات اور پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے۔

ٹیگس