عراق میں سیاسی بحران میں شدت
عراق کے سیاسی بحران کے حل کے لئے صدر فواد معصوم کی تجویز اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے مسترد کئے جانے کے بعد اس ملک کی صورتحال بہت پیچیدہ ہو گئی ہے۔
عراق میں سیاسی بحران کے آٹھویں دن پارلیمنٹ میں دھرنا دینے والے اراکین نے منگل کے دن پارلیمانی بحران حل کرنے سے متعلق فواد معصوم کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے سلیم الجبوری کے اسپیکر کے عہدے پر فائز رہنے کی مخالفت کی اور سلیم الجبوری اور پریزائڈنگ کمیٹی کو پارلیمنٹ میں داخل نہیں ہونے دیا۔
عراقی صدر نے اپنی تجویز کو بحران سے نکلنے کا روڈ میپ قرار دیتے ہوئے اس میں کہا ہے کہ تمام اراکین پارلیمنٹ ایک کھلے اجلاس میں شرکت کر کے اسپیکر اور پریزائڈنگ کمیٹی کا انتخاب کریں اور تمام دھڑے اس کی پابندی کریں اور وزیراعظم بھی کابینہ کی تشکیل کے لئے اپنے مدنظر بائیس وزرا کے نام پارلیمنٹ میں پیش کریں۔
فواد معصوم نے دھرنا دینے والے اراکین پارلیمنٹ سے اپیل ہے کی کہ وہ اختلافات کے خاتمے کے لئے پارلیمنٹ کے اسپیکر سلیم الجبوری کو رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں اپنے مواقف اور اختلافات کے حل کے طریقے بیان کرنے کی اجازت دیں۔
اس کے باوجود مخالف اراکین پارلیمنٹ نے سلیم الجبوری کو پارلیمنٹ میں داخل نہیں ہونے دیا اور صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ عراقی قوم کے مفادات کا خیال نہ رکھنے والے حکام کی روک تھام کریں گے۔
دھرنا دینے والے مخالف اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے صدرعراق کی تجویز کی مخالفت کئے جانے کے بعد سلیم الجبوری نے بھی ایک بیان میں عراقی پارلیمنٹ کے اجلاسوں کو تااطلاع ثانوی ملتوی کر دیا ہے۔
عراق میں گزشتہ منگل کے دن سے اراکین پارلیمنٹ کے دھرنے کے بعد سیاسی بحران میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ دھرنا دینے والوں نے گزشتہ جمعرات کے دن اپنے پہلے قدم کے طور پر پارلیمنٹ کے اسپیکر کی برطرفی کے لئےاعلان کیا کہ انہوں نے ایک سو ستّر سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ سلیم الجبوری اور پریزائڈنگ کمیٹی کو برطرف کر دیا ہے۔ لیکن بعض سیاسی گروہوں نے دھرنا دینے والے مخالف اراکین پارلیمنٹ کے اس اقدام کی مخالفت کی ہے۔
البتہ عراقی کابینہ میں پائے جانے والے اختلاف رائے کا تعلق کابینہ کے تناسب سے ہے۔ عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی ٹیکنوکریٹس اور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کی جگہ اپنی کابینہ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ عراقی وزیر اعظم نے اکتیس مارچ کو اپنی کابینہ کے لئے تیرہ نئے نام پیش کئے تھے جو سب کے سب ٹیکنوکریٹ تھے۔ لیکن اکثر پارلیمانی دھڑوں کی مخالفت کے باعث ان کو اعتماد کا ووٹ نہیں ملا تھا۔
اس اقدام کے بعد پارلیمانی دھڑوں نے اپنی نشستوں کے تناسب سے حیدر العبادی کی ٹیکنوکریٹ کابینہ کے لئے چند نئے نام پیش کئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حیدر العبادی کی ناکامی کی اصل وجہ اقتدار میں شامل ایسے سیاسی گروہ ہیں جو حکومتی سطح پر بدعنوانیوں کے مقابلے اور تبدیلیوں کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ اس زاویہ نگاہ کے مطابق اگرچہ عراق کا سیاسی اور قبائلی ڈھانچہ ایسا ہے کہ حکومت کی تشکیل میں اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن کابینہ کی اصلاح کے لئے سیاسی گروہوں کے اختلافات جاری رہنے سے اس ملک کا اقتدار اعلی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ توقع کی جا رہی ہے کہ عراقی حکام اپنے ملک کی حساس صورتحال خصوصا دہشت گرد گروہوں کے خطرے کا ادراک کرتے ہوئے متنازعہ مسائل کے سلسلے میں افہام و تفہیم سے کام لیں گے اور مہارت اور سیاسی رجحان دونوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مفید حکومت تشکیل دے کر موجودہ بحران کو جلد از جلد حل کر لیں گے۔