افغانستان کی امن عامہ کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تشویش
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے بم دھماکے کی مذمت کی ہے جس میں دسیوں عام شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔
اس کونسل نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ اس بم دھماکے میں ملوث عناصر، دہشت گرد گروہوں اور ان کی مالی امداد کرنے والوں کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جانا چاہئے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی کابل بم دھماکے کی مذمت کی ہے اور اس حملے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ اور افغانستان کی حکومت اور قوم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں منگل کے دن صبح کے وقت ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم تیس افراد جاں بحق اور تین سو بیس زخمی ہوگئے تھے جن میں سے بعض کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ طالبان نے اس بم دھماکےکی ذمےداری قبول کر لی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کابل میں افغانستان کی نیشنل سیکورٹی کی عمارت کے پاس ہونے والا دھماکہ اور طالبان اور اس ادارے کے اہلکاروں کے درمیان ہونےوالی فائرنگ متعدد پہلووں سے قابل توجہ ہے۔ طالبان افغانستان کی قومی فوج اور پولیس کے مقابلے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے درپے ہیں۔ طالبان کو اس وقت شدید داخلی اختلافات اور قیادت کے بحران کا سامنا ہے اور وہ خود کش حملوں کے ذریعے یہ ظاہرکرنے کے درپے ہے کہ وہ افغانستان میں حملے کرنے کے لئے کافی اتحاد اور طاقت کا حامل ہے۔
دریں اثنا افغانستان میں امن کی برقراری کے لئے روڈ میپ کی تدوین کے لئے چار فریقی مذاکرات کے پانچویں دور کے موقع پر طالبان کے حملوں کو ان مذاکرات کی مخالفت اور جنگ جاری رکھنے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ طالبان کے حملوں سے افغان حکومت کے مخالفین کے اس نظریئے کی تصدیق ہوتی ہے کہ طالبان مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کے لئے افغان حکومت کی جانب سے بڑھائے جانے والے ہاتھ کو ٹھکرا دیں گے۔ افغانستان کی حکومت کے ان مخالفین کا کہنا ہے کہ طالبان کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا جانا اور ان کے حامیوں کو عالمی پلیٹ فارموں پر رسوا کیاجانا چاہئے۔
دارالحکومت کابل میں طالبان کے حملے جاری رہنے کے باعث طالبان کے ساتھ نمٹنے کے سلسلے میں متحدہ قومی حکومت کے اختلاف رائے میں بھی شدت پیدا ہوگئی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہےکہ افغانستان میں قیام امن کا راستہ پاکستان سے گزرتا ہے اور اسلام آباد حکومت کو افغانستان میں قیام امن میں مدد دینے کی رغبت دلائی جانی چاہئے۔ طالبان کے سابقہ سرغنے ملا عمر کی ہلاکت کے اعلان ، طالبان اور کابل حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کے تعطل کا شکار ہونے اور اس گروہ کا تقسیم ہونے جیسے واقعات کا تعلق اشرف غنی کے مخالفین پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جب تک اس ملک کو افغانستان میں ضروری مراعات حاصل نہیں ہوں گی تب تک اسلام آباد کی حکومت ، افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں مدد دینے پر مائل نہیں ہوگی۔ ان تمام باتوں کے باوجود افغان حکام اور اس ملک کی فوج کے کمانڈر منگل کے دن کابل میں ہونے والے حملوں قندوز، جوزجان اور افغانستان کے دوسرے علاقوں میں ہونے والی لڑائیوں میں طالبان کی شکستوں کا ردعمل قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان اپنے مقتولین کا بدلہ لینے کے لئے عام شہریوں کا قتل عام کرتے ہیں۔
افغانستان میں بعض حلقے طالبان کے خونریز حملوں کو گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران افغانستان کی پولیس اور فوج کی تقویت اور اسے مسلح کرنے کے سلسلے میں امریکہ اور نیٹو کے بے اعتنائی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ افغانستان میں بحران اور بدامنی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے کر افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کے جاری رہنے اور اس کی تقویت کو جائز ظاہر کرنے کے علاوہ طالبان کو اس ملک کے سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ امریکہ نےحال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ نہیں بنا رہا ہے۔
بہرحال افغانستان کی پارلیمنٹ کے اراکین متحدہ قومی حکومت کے صدر محمد اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی جانب سے وزیر دفاع اور نیشنل سیکورٹی کے ادارے کے سربراہ کے عہدوں کے لئے نام پیش کرنے کے سلسلے میں لیت و لعل سے کام لینا افغانستان میں بدامنی جاری رہنے کی ایک وجہ ہے۔ ان اراکین پارلیمنٹ کا خیال ہے کہ یہ حکام ملک کی سیکورٹی کی صورتحال کو فوری طور پر بہتر بنا سکتے ہیں۔