Apr ۲۹, ۲۰۱۶ ۱۹:۱۳ Asia/Tehran
  • چین کی جانب سے جزیرہ نمائے کوریا میں جنگ کی مخالفت

چین کے صدر اور اس ملک کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل چی جین پینگ نے بیجنگ میں سیکا کے رکن ملکوں کے اجلاس میں اعلان کیا ہے کہ چین جزیرہ نمائے کوریا میں جنگ کی اجازت نہیں دے گا۔

اعتماد سازی کے اقدامات اور باہمی مشاورت کے عنوان سے قائم ایشیاء کے چھبّیس ملکوں کی تنظیم سیکا کے وزرائے خارجہ کا پانچواں اجلاس 28 اپریل کو بیجنگ میں شروع ہوا، اس اجلاس کا مقصد رکن ملکوں کے درمیان تجارتی لین دین کی تقویت اور اقتصادی تعاون کے فروغ کے لئے باہمی صلاح مشورے کرنا بتایا گیا ہے۔

لیکن جزیرہ نمائے کوریا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں چین کے موقف اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے شمالی کوریا پر ڈالا جانے والا دباؤ، اس بات کا غمّاز ہے کہ چین ایک ٹھوس موقف اپناتے ہوئے، علاقے میں جنگ اور بحران کھڑا کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دےگا۔

چین کے صدر نے دوٹوک الفاظ میں شمالی کوریا کا دفاع کیا ہے اور اس کے ساتھ اپنی اعلان کردہ پالیسی کی بنیاد پر، صبر و تحمل اور علاقے کے ملکوں کی لچک کو علاقے کے امن و استحکام کا اہم عامل قرار دیا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ شمالی کوریا کے ایٹمی اور میزائیلی تجربات نے جزیرہ نمائے کوریا میں کشیدگی کو ہوا دی ہے اور حتی چین کہ جو شمالی کوریا کا روایتی حامی شمار ہوتا ہے، پیونگ یونگ کے ان اقدامات پر خوش نہیں ہے۔

لیکن امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کی جانب سے انتباہات اور ریڈ لائنز کی تقویت اور شمالی کوریا کے اپنے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کے سلسلے کو جاری رکھنے پر اصرار نے اس علاقے کو دنیا کے بحرانی ترین علاقے میں تبدیل کردیا ہے اور عملی طور پر چین بھی شمالی کوریا کے دفاع کے لئے میدان میں آگیا ہے۔

کیونکہ شمالی کوریا کے اقدامات اور اس کے مقابلے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے پیونگ یانگ پر ڈالے جانے والے شدید دباؤ نے طویل مدت تک کشیدگی کے دروازے کھول دیئے ہیں مستقبل میں علاقے میں امریکہ اور چین کی جیئو پولٹیکل رقابت میں مزید اضافہ ہوگا۔

مغربی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس رقابت کے سلسلے میں امریکہ کے پاس کوئی مربوط حکمت عملی موجود نہیں ہے، جبکہ چین ہر چھوٹے بڑے واقعے پر پوری ہوشیاری سے نظر رکھے ہوئے ہے۔

جزیرہ نمائے کوریا میں وسیع پیمانے پر جنگ کا نظریہ شاید سیاسی حلقوں کے نزدیک زیادہ مدلل نہ ہو، لیکن وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے اس امرکی نشاندہی ہوتی ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا، عملا امریکہ کی قیادت میں ایشیاء کے وسیع علاقے میں واشنگٹن کے فوجی تسلط کے لئے زمین ہموار کررہے ہیں۔

جنوبی کوریا میں امریکہ کے تھاڈ میزائل نظام کی تنصیب، مشرق بعید میں امریکہ کے اتحادی آسٹریلیا کو واشنگٹن کی جانب سے ایک ارب ڈالر کے جدید ہتھیاروں کی فروخت اور فوجی مشقوں کی انجام دہی کے دائرے میں جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ فوجی تعاون کی تقویت، اسی نظریہ کی آئینہ دار ہے۔

اس قسم کے اقدامات، بغیر کسی شک و شبہ کے ، چین کے قومی اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت کو خطرے سے دوچار کرسکتے ہیں۔

بنابریں شمالی کوریا، ایک خود مختار اور آزاد ملک کے اقتدار اعلی کے خلاف امریکہ کی دشمنانہ پالیسیاں جاری رہنے کے بارے میں جو کچھ کہتا ہے چین پوری ہوشیاری کے ساتھ اس کا جائزہ لیتا ہے۔

اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ عملی طور پر شمالی کوریا اور جنوبی کوریا، چین اور امریکہ کی نیابت میں دیر پا مشکلات کا شکار ہوچکے ہیں۔

بہرحال چین یہ کوشش کررہا ہے کہ سفارت کاری کے ذریعے جزیرہ نمائے کوریا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرے تاکہ اس بحران کا گفتگو کے ذریعے کوئی راہ حل نکالا جائے۔

ٹیگس