May ۰۳, ۲۰۱۶ ۱۷:۰۳ Asia/Tehran
  • یورپ کو داعش سے خطرہ

داعش کے ہزاروں دہشتگرد یورپ سے تعلق رکھتے ہیں۔

جرمنی میں داخلی انٹلیجنس ادارے کے سربراہ ہانس گئورگ ماسن نے یورپی نوجوانوں کے داعش کی صفوں میں شامل ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے یہ بات تاگس اشپیگل نامی اخبار سے انٹرویو میں کہی۔ گئورگ ماسن نے کہا کہ قانونی عمر سے کم عمر کے لڑکے بحرانی علاقوں میں جاکر داعش کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں۔ جرمنی کے اس سکیورٹی عھدیدار کا کہنا ہے کہ داعش نے پیرس اور برسلز جیسے دہشتگردانہ حملے کرنے کے لئے یورپ میں خصوصی ٹیمیں بھیجی ہیں اور اس ھدف کے لئے انٹرنیٹ سے استفادہ کررہا ہے۔

یورپ میں داعش کی وسیع سرگرمیوں اور اس دہشتگرد گروہ میں یورپ کے نوجوانوں کے شامل ہونے کے بارے میں جرمنی کے داخلی انٹلیجنس ادارے کے سربراہ کے ان بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ کے انٹلیجنس ادارے داعش کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے میں ناکام اور ناتواں ہیں کیونکہ داعش کے کچھ دہشتگردوں کو گرفتار کرنے سے اس دہشتگرد گروہ کو نابود نہیں کیا جاسکتا۔ داعش نے تازہ دم جوانوں اور نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرکے گرفتار ہونے والے اور مطلوبہ افراد کی جگہ پرکرلی ہے اور وہ اب نئے دہشتگردانہ اقدامات کا منصوبہ بنا کر ان پر عمل کرسکتا ہے۔

داعش کے بہت سے دہشتگردوں کا تعلق یورپ سے ہے۔ یورپ میں ہر دہشتگردانہ حملوں کے بعد یورپ کے سرکاری اورغیرسرکاری اداروں نے کہا ہے کہ یورپ کے ہزاروں افراد داعش کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شام وعراق میں ہزاروں انسانوں کا قتل عام نیز دہشتگردانہ اقدامات کرکے وحشت و دہشت پھیلانے کا بھرپور تجربہ حاصل کیا ہے اور اب متحرک بم بن چکے ہیں اور ان سے ہر لمحہ یورپ کو دہشتگردی کا خطرہ لاحق ہے۔

یورپی حکومتوں نے پانچ برس قبل شام کی حکومت گرانے کے لئے شام میں سرگرم عمل دہشتگرد گروہوں کی حمایت کی تھی اور ان کا یہ تاثر تھا کہ وہ اپنی ان پالیسیوں سے مشرق وسطی میں دواسٹراٹیجیک اھداف حاصل کرلیں گی۔ ان کا پہلا ھدف یہ تھا کہ وہ شام کی حکومت کو گراکر اسلامی بیداری کی تحریکوں کے بعد مشرق وسطی کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو اپنے کنٹرول میں لاسکتے ہیں اور صیہونی حکومت کے خلاف جاری مزاحمت کو کنارے لگادیتے ہیں۔

جمہوریت کی حمایت کے نام نہاد نعرے کے تحت دہشتگرد گروہوں کی حمایت سے یورپی حکومتوں کا دوسرا ھدف یورپ سے دہشتگردوں کو نکال کر مشرق وسطی اور شمالی افریقہ بالخصوص شام بھیجنا تھا۔ یورپی ممالک یہ سوچ رہے تھے کہ اس طرح سے بغیر پیسہ خرچ کئے یورپ سے دہشتگردوں کو نکال دیں گے۔ اسی بنا پرمغربی حکومتوں اور ان کے علاقائی اتحادیوں بالخصوص ترکی اور سعودی عرب نے شام میں یورپی دہشتگردوں کے بھیجے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں یورپی باشندے دنیا کے سب سے بڑے دہشتگرد گروہ میں شامل ہوگئے۔

یورپی ملکوں کی جانب سے دہشتگردی کو اچھی اور بری دہشتگردی میں تقسیم کرنے کی پالیسیوں نے آخر کار یورپ کو بھی دہشتگردی کی زد میں لا کھڑا کیا اور اب انہیں دہشتگردی کی نئی نئی شکلوں کا سامنا ہے۔ یورپ کے بڑے بڑے شہروں کے مضافات میں ایسی کالونیاں ہیں جن میں مہاجرین اور یورپی شہری رہتے ہیں جو سماجی، ثفافتی اور معاشی لحاظ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ ان مہاجرین میں پڑھے لکھے اور کم تعلیم یافتہ لوگ بھی پائے جاتے ہیں ان لوگوں کو یورپی معاشروں میں دوسرے درجے کا شہری قراردیا جاتا ہے۔ البتہ داعش کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ان کالونیوں میں بسنے والے لوگ اس قدر شدید طبقاتی اختلاف کا شکار نہیں تھے اور یورپی حکومتیں کسی نہ کسی طرح ان کے مسائل پر قابو پالیتی تھیں لیکن شام میں مغربی حکومتوں اور ان کے اتحادیوں کی بحران پیدا کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں یورپ کے ہزاروں نوجوانوں اور جوانوں کو یہ موقع مل گیا کہ وہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش میں شامل ہوکر اپنی زندگی کے خلا پورے کرنے لگے۔ ان میں بہت سے لوگ شام و عراق میں کئی برس یا کئی مہینے تک رہنے کے بعد اپنے اپنے ممالک واپس چلے گئے اور انہوں نے مغربی اقدار اور قوانین کے خلاف جدوجہد شروع کردی اور اب یہ لوگ مغربی جاسوس تنظیموں کے لئے متحرک بموں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

یورپی انٹلیجنس سروسز ان کے خلاف اس وقت تک کوئی اقدام نہیں کرسکتیں جب تک وہ کسی جرم کے مرتکب نہ ہوں۔ یہ وہی خطرہ ہے جس کے بارے میں جرمنی کی داخلی انٹلیجنس ایجنسی کے سربراہ نے بھی بات کی ہے کیونکہ پیرس اور برسلز میں ان ہی افراد نے دہشتگردانہ حملے کئے تھے۔

ٹیگس