نیٹو کے نئے کمانڈر کا روس مخالف موقف
یورپ میں نیٹو کے نئے کمانڈر نے اپنے کام کا آغاز روس کو دھمکی دینے کے ساتھ کیا ہے۔
کرٹس سکاپوروٹی (Curtis Scaparrotti) نے اس عہدے کے لئے اپنی تقرری سے متعلق تقریب میں اس تنظیم سے اپیل کی کہ وہ روس اور دہشت گردی کے خطرات کے مقابلے کے لئے مشرقی یورپ میں اپنی فوجی طاقت کو تقویت پہنچائے۔
کرٹس سکاپوروٹی (Curtis Scaparrotti) نے اس بات کا دعوی کیا کہ نیٹو کو ایسے روس کا سامنا ہے جو ایک طاقت کے طور پر اپنے آپ کو دنیا پر مسلط کرنےکے درپے ہے۔ اس امریکی جنرل نے فلپ بریڈلاو کی جگہ لی ہے کہ جو روس مخالف شدید مواقف رکھنے کے سلسلے میں مشہور ہیں۔
اگرچہ نیٹو ہمیشہ یہ دعوی کرتی رہی ہےکہ وہ روس کے لئے خطرہ نہیں ہے لیکن اس فوجی تنظیم کے اعلی حکام کے مواقف اور دوسرے ممالک میں اس تنظیم کے اقدامات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ یہ دعوی غلط ہے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین موقف یورپ میں نیٹو کے نئے کمانڈر کرٹس سکاپوروٹی (Curtis Scaparrotti) کے دھمکی آمیز بیانات ہیں۔ انہوں نے یہ منصب حاصل کرنے کے بعد روس کو دھمکی دینے کے ساتھ اپنا پہلا موقف اختیار کیا ہے۔
ان بیانات سے روس کے سلسلے میں ان کے رویئے اور اس تصور کی نشاندہی ہوتی ہےکہ جو وہ خصوصا مشرقی یورپ میں روس کے اقدامات کی ماہیت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ اس بات کی توقع کی جانی چاہئے کہ وہ بھی سابق کمانڈر بریڈلاو کی طرح روس کے بارے میں مخاصمانہ رویہ اختیار کریں گے اور مشرقی یورپ میں نیٹو کی زیادہ فوجی موجودگی اور روس کے شدید مقابلے پر اصرار کریں گے۔ یہ چیز نیٹو کے سیکرٹری جنرل ینس اسٹولنبرگ کے دعووں کے منافی ہے جو کہ وقتا فوقتا روس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنے بیانات میں روس کے ساتھ دشمنی نہ رکھنے کا دعوی کرتے رہتے ہیں۔
اگرچہ نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے اپنے آخری موقف میں اس بات پر تاکید کی ہے کہ یہ تنظیم روس کے ساتھ ایک اور سرد جنگ شروع کرنے کے درپے نہیں ہے لیکن اس کے باوجود حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ اب روس اور یورپ کے درمیان کشیدگی میں شدت کے بعد ماسکو کے مقابلے میں نیٹو کا کردار زیادہ کھل کر سامنے آیا ہے اور چار بٹالین (battalion) کی صورت میں چار ہزار فوجیوں کو بالٹک اور پولینڈ روانہ کرنا، ایسٹونیا میں وسیع پیمانے پر فوجی مشقیں کرنا اور بحیرہ اسود میں ایک بحری بیڑہ بھیجنا روس کے خلاف نیٹو کے بعض مخاصمانہ اقدامات شمار ہوتے ہیں۔
دوسری جانب امریکہ نے بھی نیٹو کے سب سے بڑے اور اہم رکن ہونے کی حیثیت سے یورپ میں اپنے فوجی اقدامات میں اضافہ کر دیا ہے۔ ان اقدامات میں سے یورپ کےلئے مختص بجٹ میں چار گنا اضافے، ہالینڈ اور آئسلینڈ میں لڑاکا طیارے بھیجنے، ریپڈ ایکشن فورسز کے اہلکاروں کی تعداد میں اضافے اور بالٹک اور مشرقی یورپ کے علاقے میں امریکہ کا بھاری جنگی سازوسامان بھیجے جانے کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام اقدامات روس کے مقابلے کے مقصد سے ہی کئے گئے ہیں۔
دوسری جانب نیٹو نے بھی حالیہ دو برسوں کے دوران روس کے خلاف اپنے اشتعال انگیز اقدامات میں شدت پیدا کردی ہے۔ جن میں سے مشرقی یورپ میں روس کے پڑوس میں واقع ممالک میں چھ ہیڈکوارٹرز کے آپریشنل کئے جانے کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ نیٹو نے ماسکو کی شدید مخالفت کے باوجود مشرق کی جانب پھیلاؤ کی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے اور اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ نیٹو میں مونٹے نیگرو کی رکنیت کے عمل کا باضابطہ آغاز ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نیٹو اور روس کے درمیان مشرقی یورپ اور بحیرہ اسود میں فوجی کشیدگی کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اس کشیدگی میں کمی کی کوئی علامت دکھائی نہیں دیتی ہے۔ خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ حال ہی میں بحیرہ بالٹک میں نیٹو اور روس کے فوجیوں میں جھڑپیں بھی ہوئی ہیں جن کے بعد امریکہ نے خبردار بھی کیا ہے۔
روس اور نیٹو کے ایک دوسرے کے عدم اعتماد اور فریقین کی جانب سے اشتعال انگیز اقدامات کا سلسلہ جاری رہنے کے پیش نظر روس اور نیٹو کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے یورپ کی سیکورٹی خطرات کی زد میں آچکی ہے۔