May ۰۸, ۲۰۱۶ ۱۵:۰۲ Asia/Tehran
  • دریائے اردن کے مغربی کنارے میں اسرائیل کی توسیع پسندی کے بارے میں فلسطینیوں کا انتباہ

فلسطینی سرزمینوں کے دفاع اور اسرائیلی حکومت کے صیہونی کالونیوں کی تعمیر کے اقدام کے مقابل استقامت کے قومی دفتر نے دریائے اردن کے مغربی کنارے میں اس حکومت کے قوانین لاگو کرنے کی کوشش کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

تنظیم آزادی فلسطین سے وابستہ فلسطینی سرزمینوں کے دفاع اور اسرائیلی حکومت کے صیہونی کالونیوں کی تعمیر کے اقدام کے مقابل استقامت کے قومی دفتر نے اپنی ہفتہ وار رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی قانون لاگو کرنے کے بارے میں اسرائیلی کابینہ کے ارکان کے نسل پرستانہ مطالبات، فلسطینی علاقوں کے اسرائیل کے ساتھ الحاق کی جانب ایک قدم ہے۔

اس سے قبل اسرائیل کے وزیر انصاف ایلیت شاکید نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں اسرائیلی قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب حالیہ دنوں کے دوران دریائے اردن کے مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کرنے کے نئے منصوبوں اور اقدامات کی خبریں منظرعام پر آئی ہیں کہ جو دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے پر مکمل تسلط کے لیے صیہونیوں کی خطرناک سازش کی عکاسی کرتی ہیں۔

اس سلسلے میں صیہونی ذرائع نے اس بات سے پردہ اٹھایا ہے کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کنسٹ دریائے اردن کے مغربی کنارے کو اسرائیل کے دیگر علاقوں میں شامل کرنے کے مقصد سے ایک نیا قانون منظور کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ صیہونی حکومت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مختلف طریقوں سے اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں صیہونی حکومت کہ جس نے انیس سو سڑسٹھ میں دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا تھا، ہمیشہ اس علاقے پر اپنے تسلط کو بڑھانے کے چکر میں رہی ہے۔

صیہونی حکومت فلسطینیوں کے گھروں اورعمارتوں کو مسمار اور دریائے اردن کے مغربی کنارے میں صیہونی بستیاں تعمیر کر کے مقبوضہ علاقوں میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے اور اسلامی و فلسطینی آثار کو مٹانے کے ساتھ ساتھ فلسطینی علاقوں کو صیہونی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

صیہونی حکومت انیس سو سڑسٹھ میں قبضہ کیے گئے فلسطینی علاقوں کو انیس سو اڑتالیس میں قبضہ کیے گئے فلسطینی علاقوں یعنی قابض اسرائیل میں ضم کرنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے اور یہ علاقے میں اس کی توسیع پسندانہ پالیسی کا ایک حصہ ہے۔ درحقیقت صیہونی حکومت نے غرب اردن کو ضم کرنے کی پالیسی پہلے بیت المقدس سے شروع کی ہے۔

اسرائیلی حکومت نے مغربی بیت المقدس پر انیس سو اڑتالیس میں اور مشرقی بیت المقدس پر انیس سو سڑسٹھ میں قبضہ کیا تھا۔ اس نے انیس سو اکاسی میں بیت المقدس کو بھی مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل میں شامل کر لیا تاکہ وہ قدس کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت قرار دینے اور اسے عالمی برادری سے تسلیم کروانے کا راستہ ہموار کر سکے۔

صیہونی حکومت فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی اس پالیسی پر دریائے اردن کے مغربی کنارے کے تمام علاقوں میں عمل کرنا چاہتی ہے۔ یہ ایسے حالات میں ہے کہ قدس کی غاصب حکومت فلسطینی علاقوں میں اپنے قوانین لاگو کر کے فلسطینیوں پر اپنے گھربار چھوڑنے کے لیے دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔

غاصب صیہونی، فلسطینی علاقوں پر پہلے سے زیادہ تسلط قائم کر کے عملا ان علاقوں پر قبضے کا سلسلہ مکمل کرنا چاہتے ہیں۔

جبکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور جنیوا کنونشن کے مطابق اسرائیل پرایک غاصب حکومت کی حیثیت سے مقبوضہ علاقوں کے جغرافیائی ڈھانچے اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ لیکن عالمی برادری نے صیہونی حکومت کے مقابل مسلسل خاموشی اختیار کر کے اسے فلسطین میں اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں پرعمل درآمد کرنے کے لیے جری اور گستاخ کر دیا ہے۔

ٹیگس