مسجد الاقصی پراسرائیلی قبضے کی کوشش پر ردعمل
ایک ایسے وقت میں کہ جب رائے عامہ کی توجہ عراق اور شام میں تکفیری دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر مرکوز ہے، صیہونی حکومت نے ایسے حالات سے غلط فائدہ اٹھا کر اپنے دہشت گردانہ اقدامات میں شدت لا کر اپنے توسیع پسندانہ اور تسلط پسندانہ اقدامات کو تیز کر دیا ہے۔
فلسطینی علاقوں خاص طور پر مسجد الاقصی سمیت اسلامی عمارتوں پر بتدریج قبضہ جمانے کے لیے صیہونی حکومت کے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈے کے نئے دور پر وسیع ردعمل سامنے آیا ہے کہ جو فلسطینی علاقوں میں صیہونی حکومت کی ہر قسم کی تسلط پسندی پر فلسطینیوں اور رائے عامہ کی بڑھتی ہوئی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اس سلسلے میں صیہونی حکام کی جانب سے فلسطینی نمازیوں کی آمد و رفت کو کنٹرول کرنے کے لیے مسجد الاقصی کے شمال مغربی حصے میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے بعد مفتی قدس شیخ محمد حسین نے ایک بیان میں اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ صیہونیوں کی یہ جارحیت مسجد الاقصی کے لیے ایک سنگین اور براہ راست خطرہ ہے۔
جیسا کہ کہا گیا اسرائیل علاقے کے موجودہ حالات سے غلط فائدہ اٹھا کر منصوبہ بند طریقے سے اور کھلم کھلا قدس کو یہودی رنگ دینے کے منصوبے کو مکمل کر رہا ہے۔
دو ہزار بیس تک قدس کو مکمل طور پر یہودی رنگ میں رنگنے کے منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے پندرہ ارب ڈالر سے زائد کی رقم مختص کرنے کے سلسلے میں بنیامین نیتن یاہو کی انتہا پسند کابینہ کا کچھ عرصہ پہلے کیا گیا اقدام، قدس پر اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے اس حکومت کے اقدامات کا ایک حصہ ہے۔
واضح رہے کہ صیہونی حکومت نے بیت المقدس پر بتدریج قبضہ کرنے کے تناظر میں دو ہزار چودہ میں صیہونی حکومت کی کابینہ میں ایک منصوبے کی منظوری دی ۔ اس منصوبے میں چھے سال کے عرصے کے دوران مشرقی بیت المقدس میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا، اس علاقے کو بتدریج مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل میں ضم کرنا اور مشرقی بیت المقدس پر صیہونی حکومت کی فوجی اور سیکورٹی موجودگی اور نگرانی میں اضافہ شامل ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران قدس کے بارے میں اسرائیلی کابینہ کے اقدامات میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اضافہ ہو گیا ہے کہ جو قدس پر مکمل قبضہ جمانے کے لیے اس غاصب حکومت کی پوری طاقت و توانائی کے استعمال کی عکاسی کرتا ہے۔ صیہونی حکام کا اپنے اس دعوے پر زور دینا کہ بیت المقدس اس حکومت کے زیرقبضہ علاقوں کا اٹوٹ حصہ ہے، مسجد الاقصی کے خلاف صیہونی حکومت سازشی اور سیاسی اقدامات کے لیے ایک پیش خیمہ بن گیا ہے اور یہ صورت حال قدس کے خلاف صیہونی حکومت کی خطرناک سازشوں کے مقابل فلسطینیوں اورعالمی برادری کے مزید ہوشیار اورچوکنا رہنے کا تقاضا کرتی ہے۔
واضح رہے کہ بیت المقدس پر مکمل قبضہ صیہونی حکومت کے اہداف و مقاصد میں شامل ہے اور یہ وہ بات ہے کہ جو اس غاصب حکومت نے فلسطین کی سرزمین پر قبضے سے اپنے پیش نظر رکھی ہوئی ہے۔
اس حکومت نے انیس سو اڑتالیس میں مغربی بیت المقدس پر قبضہ کیا اور پھر فلسطینی سرزمینوں میں اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے انیس سو سڑسٹھ میں مشرقی بیت المقدس پر بھی قبضہ کرلیا۔
یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب فلسطینی علاقوں خاص طور پرمسجد الاقصی سمیت اسلامی عمارتوں پر بتدریج قبضہ جمانے کے لیے صیہونی حکومت کے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈے کے نئے دور پر وسیع ردعمل سامنے آیا ہے کہ جس سے فلسطینی علاقوں میں صیہونی حکومت کی ہر قسم کی تسلط پسندی پر فلسطینیوں اور رائے عامہ کی بڑھتی ہوئی حساسیت ظاہر ہوتی ہے۔
قدس پرمکمل قبضہ جمانے کے لیے صیہونی حکومت کے اقدامات اور منصوبے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد چار سو اٹھتر کے منافی ہیں کہ جس میں واضح طور پر دنیا والوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ قبضے اور جارحیت کے جاری رہنے اور قدس کو مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل میں شامل کرنے کے سلسلے میں صیہونی حکومت کے کسی بھی قسم کے اقدام نیز قدس کے امور کو چلانے میں کسی بھی قسم کی مداخلت کو تسلیم نہ کریں اور اس کا مقابلہ کریں۔