ترکی کا روس پرنیا الزام
ترکی اور روس کے درمیان دشمنی کی آگ مسلسل بھڑک رہی ہے۔
فریقین نے ایک دوسرے پر الزام کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو نے روس پر شام میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اناطولیہ کی رپورٹ کے مطابق مولود چاووش اوغلو نے روس پرشام میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ ماسکو اس ملک میں موجود دہشت گرد گروہوں کو نشانہ بنانے کے بجائے عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
ترکی کے وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ روس کے حملوں میں النصرہ اور داعش دہشت گرد گروہوں کےعناصر کو نشانہ بنانے کے بجائے ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس ترک سفارت کار نے بشار اسد پر بھی شام میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ترک حکام نے روس پر الزامات عائد کئےہیں۔ اس سے قبل بھی ترک حکام روسی حکام پر اسی سے ملتے جلتے الزامات عائد کر چکے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب روس کے حکام نے ہمیشہ ترک حکام کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔
ترکی نے ایسی حالت میں روس اور شام کی حکومت پر اس ملک میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے کہ جب دہشت گرد گروہ داعش نے حالیہ برسوں کے دوران امریکہ، ترکی، مغرب اور خلیج فارس کی بعض دقیانوس عرب حکومتوں کی مالی اور فوجی حمایتوں کے ساتھ خطے کے ممالک خصوصا عراق اور شام میں بہت زیادہ مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ترکی کی فوج نے گزشتہ برس چوبیس نومبر کو منگل کے دن شام کی فضا میں جان بوجھ کر روس کا سوخو چوبیس لڑاکا طیارہ مار گرایا تھا جس کے نتیجے میں روس کا ایک پائلٹ مارا گیا تھا اور اس کے بعد ماسکو اور انقرہ کے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔
ماہرین کا کہنا ہےکہ ترک حکومت دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے روس پر الزامات لگاتی ہے اور ان الزامات کا مقصد روس کے بعض اقدامات کا مقابلہ کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترک حکومت موجودہ حالات میں اپنے ہمسایہ ممالک خصوصا روس کے اقدامات کا مقابلہ کرنے کی توانائی نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا نظر آتاہے کہ وقتا فوقتا انقرہ حکومت بار بار کے دہرائے ہوئے الزامات لگا کرماسکو کے اقدامات پرردعمل دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
موجودہ صورتحال میں ترکی کی حکومت کو متعدد ملکی اورعلاقائی مشکلات کا سامنا ہے اوران مشکلات کو وہ خود ہی وجود میں لائی ہے۔ کردوں کے ساتھ لڑائی، پی کے کے کے افراد کو کچلنا، ترکی کے کرد آبادی والے صوبوں کو بدامنی کا شکار کرنا، ترک حکومت کے بقول متوازی حکومت تشکیل دینے اور کودتا کی سازش کی بنا پرگولن کی جماعت کے ساتھ لڑائی، شام میں بشاراسد کی قانونی حکومت کو گرانے کے لئے خلیج فارس کی ساحلی دقیانوس عرب حکومتوں اور بعض مغربی ملکوں کے ساتھ تعاون کرنا اور متعدد اقتصادی مسائل ان میں سے صرف چند ایک مشکلات ہیں جن کا اس وقت ترک حکام کو سامنا ہے۔
یہ مشکلات درحقیقت ترکی کی حکمران پارٹی ترقی و انصاف نے اس ملک کے عوام پر مسلط کی ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب روس کے ساتھ کشیدگی کو ترکی کی حکومت کی ایک اور مشکل شمار کیا جانا چاہئے اور یہ مشکل قلیل مدت میں حل ہونے والی بھی نہیں ہے۔ اس کشیدگی کے نتیجے میں ترکی کے سرمایہ داروں اور تاجروں کو کم از کم بیس ارب ڈالرکا نقصان ہوا ہے۔ ان غلط پالیسیوں کی وجہ سے ترکی کی حکومت کو گزشتہ ایک سال کے دوران متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ترک صدر کی پالیسیوں کی وجہ سے حکمران انصاف و ترقی پارٹی بھی رجب طیب اردوغان کے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ کہنا چاہئے کہ شام کے داخلی امور کے سلسلے میں ترکی کے حکام کی جانب سے روس کے خلاف الزامات کے پیش نظرایسا نہیں لگتا کہ شام کے داخلی امور میں مفادات رکھنے والے ممالک کی صورتحال میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ اس کے علاوہ بشاراسد کی قانونی حکومت کی جانب سے شام میں روس کے اقدامات کی حمایت کے پیش نظر ترکی کے الزامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔