May ۱۵, ۲۰۱۶ ۱۹:۱۲ Asia/Tehran
  • وہابیت، دہشت گردی اور اسلامی دنیا میں تفرقے کی جڑ

سعودی عرب کے مفتی اور مستقل فتوی کمیٹی کے رکن شیخ صالح الفوزان نے دنیا کے مختلف علاقوں میں وہابی افکار پھیلائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس مفتی نے ریاض شہر کی دارالعلوم یونیورسٹی میں کہا کہ سعودی عرب اور دوسرے ممالک میں وہابی افکار و نظریات کی ترویج ضروری ہے۔ شیخ صالح الفوزان کے نزدیک وہابی نظریات کو سیکھنا اور ان کا تحفظ کرنا اس کے حامیوں کے فرائض میں شامل ہے۔

وہابیت دہشت گردوں کے وجود میں آنے کا مرکز ہے۔ طالبان سے لے کر داعش تک کے مختلف انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کی نظریاتی بنیاد وہابیت ہی ہے۔

سعودی عرب وہابیت اور سلفی فرقے کی ترویج کرنےوالے ملک کے طور پر دہشت گردوں کو وجود میں لانےاور ان کو دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھیجنے کا گڑھ ہے۔ داعش ، القاعدہ اور طالبان سمیت مختلف دہشت گرد گروہوں میں سعودی عرب کے شہری وسیع پیمانے پر شامل ہیں اور ہر دہشت گردانہ کارروائی میں سعودی عرب کے ہاتھ واضح طور پر نظر آتے ہیں۔

سعودی عرب کی جانب سے دہشت گردی کی مختلف صورتوں کی نظریاتی اور فکری حمایت ، اس حکومت کے بامقصد اقدامات اور منظم پلاننگ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی حمایت ہے۔ آل سعود بیت الہش کے کلیدبردار کی حیثیت سے وہابیت کی ترویج کر کے عالم اسلام پر ظلم کر رہی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران سعودی عرب کے اقدامات کا نتیجہ وہابیت، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے پھیلاؤ کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔

حقیقی اسلام کے دفاع کے نام پر بظاہر اسلامی لیکن حقیقت میں انتہا پسند گروہ خالص محمدی اور رحمانی اسلام کی تصویر کو بگاڑ کر پیش کرتے ہیں۔ طالبان اور القاعدہ حالیہ برسوں کے دوران اسلام کے نام پر اسلام مخالف اقدامات انجام دے رہے ہیں اور وہ وہابیت اور سلفیت کے سہارے مختلف اسلامی ممالک کے بے گناہ لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ داعش، جبھۃ النصرۃ ، القاعدہ اور طالبان کی نظریاتی بنیاد سعودی عرب کی وہابیت ہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک گروہ اسی طریقے کے مطابق اپنے منصوبے پر عمل کرتا ہے جو اس نے سعودی عرب کے مدارس میں سیکھا ہوتا ہے۔ ان انتہاپسند اور دہشت گرد گروہوں کے اقدامات کا پہلا نتیجہ اسلامی دنیا میں اختلافات پیدا ہونے اور دوسرا نتیجہ مسلمانوں کے دشمنوں کی خوشی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

سعودی عرب نے اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد کےبجائے اسرائیل اور امریکہ سمیت دشمنوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے مختلف اسلامی گروہوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے اور وہابی نظریات کا سہارا لیتے ہوئے اس نے اپنے ہتھیاروں کے ساتھ اسلام دشمنوں اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے حقیقی مجاہدین کو نشانہ بنا رکھا ہے۔

حزب الہش کے مقابلے میں اسرائیل کے ساتھ تعاون، مختلف عراقی گروہوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنا اور اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لاکھڑا کرنا وہابیت کا شاخسانہ ہے اور وہابیت کی جڑ آل سعود ہے۔ وہابیت کا نتیجہ اسلامی دنیا میں تفرقہ ڈالنے اور بظاہر اسلامی گروہ تشکیل دینا ہے ۔ سعودی عرب یہ اقدام خالص محمدی اسلام کے مقابلے میں سیاسی اسلام یا امریکی اسلام وجود میں لانے سے متعلق مغرب خصوصا امریکہ کی کوشش کے دائرہ کار میں انجام دے رہا ہے۔

ٹیگس