May ۳۰, ۲۰۱۶ ۱۸:۱۱ Asia/Tehran
  • داعش کی شکست پراردوغان پریشان

ترکی کے صدر نے استنبول کی فتح کی سالگرہ کی تقریب میں بحران شام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایران، روس اور امریکہ پر دہشت گردی کی حمایت کرنے اور شامی بچوں کو ہلاک کرنے کا الزام لگایا اور ان ملکوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو ہلاک کر کے آپ داعش کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔

رجب طیب اردوغان نے کہ جن کے بیان میں شام میں دہشت گرد گروہ داعش کی پے در پے شکستوں پر غصہ نمایاں تھا، اس بات پر زور دیا کہ بحران شام کی واحد راہ حل بشار اسد کی برطرفی ہے۔

رجب طیب اردوغان نے ایسے حالات میں ایک بار پھر بشار اسد کی برطرفی کو بحران شام کی واحد راہ حل قرار دیا ہے کہ حتی ترکی کے کل کے اتحادی بشار اسد کی برطرفی کو بحران شام کی واحد راہ حل قرار دینے پر زیادہ یقین نہیں رکھتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ ترکی کے صدر ایسے حالات میں ایران، روس حتی امریکہ پر شام میں بچوں کو ہلاک کرنے کا الزام لگا رہے ہیں کہ جب انھوں نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کے قتل عام پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

لیکن حقیقت میں سوال یہ ہے کہ ترکی کے صدر کس چیز سے پریشان ہیں کہ وہ علاقے کے ملکوں اور امریکہ اور روس پر چڑھ دوڑے ہیں؟

مبصرین کا خیال ہے کہ اس تشویش اور پریشانی کی وجہ، ترکی کے داخلی حالات اور مشرق وسطی کی علاقائی تبدیلیوں میں تلاش کرنی چاہیے۔ داخلی پہلو سے اگر دیکھا جائے تو اردوغان نے اپنے وزیراعظم اور گزشتہ ایک عشرے کے دوران ترکی کی خارجہ پالیسی کے معمار احمد داؤد اوغلو کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا اور اب ان کو اس بات سے پریشانی ہے کہ ان کے پاس خارجہ پالیسی کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے۔ لہذا وہ مشرق وسطی کے بارے میں ترکی کی سابقہ پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہیں کہ جس میں بحران شام کے حل کے لیے بشار اسد کی اقتدار سے علیحدگی پر زور دیا گیا ہے۔

ترکی نے ملک کے اندر حالیہ تبدیلیوں اور شام کے شمالی علاقوں میں داعش کے دہشت گردوں کے خلاف شامی کردوں کی کامیابی کے بعد اس ملک کے معاملات کے بارے میں اپنے سب سے بڑے غیرملکی اتحادی کو کھو دیا ہے۔

بحران شام کے حل کے لیے امریکی پالیسی میں تبدیلی اور شامی عوام کے ہاتھوں اپنے ملک کی تقدیر کے فیصلے پر تاکید، بحران شام کے حل کے سلسلے میں علاقے سے باہر کی طاقتوں کے نقطۂ نظر میں تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے، لیکن اس تبدیلی نے اردوغان کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔

رجب طیب اردوغان کا خیال ہے کہ شام کے شمالی علاقوں میں شامی کردوں کے مضبوط ہونے کا ترکی میں کردوں کی پارٹی پی کے کے کے مضبوط ہونے سے گہرا تعلق ہے۔ انھوں نے ان کو دہشت گرد قرار دے کر اور ان کے خلاف کارروائی کے بہانے پورے ملک میں سیکورٹی کی فضا پیدا کر دی ہے حتی وہ ترک پارلیمنٹ میں کرد پارٹیوں کے نمائندوں کو حاصل عدالتی تحفظ کو ختم کرنے کی حد تک چلے گئے ہیں۔ ترکی کے صدر نے استنبول کی فتح کی سالگرہ کی تقریب میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ملک کے اندر اور باہر پی کے کے، کے خلاف کارروائی اس جماعت کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گی۔ لیکن یہ سب چیزیں داخلی اور علاقائی تبدیلیوں پر اردوغان کی تشویش کا صرف ایک حصہ ہیں۔

شام کے اندر داعش کی شکست اور مشرق وسطی کے موجودہ حالات میں اس ملک کے دباؤ کے ہتھکنڈے کے اثر میں کمی پر تشویش، مشرق وسطی کے میدان میں ترکی اور سعودی عرب کے اثرورسوخ اور اقتدار کا کھیل ہارنے پراردوغان کی پریشانی کی اہم وجہ ہے۔

لہذا رجب طیب اردوغان کو امید ہے کہ جس طرح انھوں نے گزشتہ سال استنبول کی فتح کی سالگرہ کی تقریب سے سیاسی و تشہیراتی فائدہ اٹھاتے ہوئے رائے عامہ کے جذبات کو بھڑکا کر پارلیمانی انتخابات میں اپنی پارٹی کو کامیابی دلوانے میں کامیابی حاصل کی تھی، اسی طرح اس بار بھی وہ اس تقریب سے سیاسی فائدہ اٹھا کر داخلی بحران اور بدامنی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا کر اپنی خارجہ پالیسی کا جواز بھی پیش کر دیں گے۔ ان کی اس پالیسی نے اب تک ترکی کے عوام اور معاشرے کو سیاسی و مالی لحاظ سے بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

ٹیگس