7 تیر کا واقعہ امریکی حمایت یافتہ دہشت گردی کا ایک ثبوت
اسلامی جہموریہ ایران کی تاریخ میں ایسے بہت سے تلخ واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں تسلط پسند نظام کا اہم ترین کردار رہا ہے۔
شمسی سال کے تیر ماہ کی 6 سے لیکر 12 تاریخ یعنی 27 جون سے 3 جولائی کی تاریخوں میں نہایت ہی تلخ واقعات رونما ہوئے جس کی وجہ سے ان ایام کو ایک غیر معمولی ہفتہ سمجھنا چاہئے۔
اسلامی انقلاب کی تاریخ کے یہ ایام خونریز دہشت گردانہ کارروائیوں سے پر ہیں۔ ایسی دہشت گردانہ کارروائیاں جن میں ایران کے اسلامی جمہوری نظام اور ایرانی قوم کے خلاف امریکا کی سرکردگی میں تسلط پسند نظام کا براہ راست کردار رہا۔
ایران کو ایک ہفتے کے وقفے سے کئی دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کے خلاف منافقین کے دہشت گرد گروہ ایم کے او کی کارروائیاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔ 6 تیر سنہ 1360 ہجری شمسی مطابق 27 جون 1981 کو تہران کی مسجد ابوذر میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای پر ان کے خطاب کے دوران دہشت گردانہ حملہ کیا گیا۔ اس کے اگلے دن یعنی 7 تیر 1360 ہجری شمسی مطابق 28 جون 1981 کو ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کی تاریخ کے ایک سب سے بڑے دہشت گردانہ واقعہ کے ساتھ ہی دہشت گردانہ کارروائیاں ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئیں۔
7 تیر کو ہونے والے منافقین کے دہشت گرد گروہ ایم کے او کے دہشت گردانہ بم دھماکے میں ایرانی عدلیہ کے اس وقت کے سربراہ آیت اللہ ڈاکٹر سید محمد حسینی بہشتی اور اسلامی نظام کے دیگر 72 اعلی عہدیدارشہید ہوگئے۔ شہید ہونے والوں میں 4 وزرا، 12 معاون وزرا اور تقریبا" 30 اراکین پارلیمنٹ شامل تھے۔
اسی سال 8 شہریور مطابق 20 اگست کو ایک اور دہشت گردانہ بم دھماکہ ہوا جس میں ایران کے اس وقت کے صدر محمد علی رجائی اور وزیر اعظم محمد جواد باہنر شہید ہوگئے۔ امریکا نے، جس کو یہ بخوبی علم تھا کہ ایم کے او کے دہشت گردوں کے ہاتھ ہزاروں بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگے ہیں، 28 ستمبر سنہ 2012 کو دہشت گرد گروہوں کی امریکی فہرست سے ایم کے او کا نام نکال دیا اور اس دہشت گرد گروہ کو پناہ دینا جاری رکھا۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران کے خلاف وسیع دہشت گردانہ سازشیں کی گئیں اورسترہ ہزار سے زیادہ افراد ان دہشت گردانہ سازشوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دہشت گرد گروہ ایم کے او کے عناصر نے 1979 سے 1981 تک کے برسوں میں ایران کے بہت سے اعلی عہدیداروں، انقلابیوں اور معاشرے کے مختلف طبقات کے افراد کو نشانہ بنایا اور جب یہ عناصر ایران سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے تو انہوں نے شروع میں ایک سازشی اقدام کے تحت یورپ اور امریکا کی حمایت کے زیر سایہ کچھ عرصہ فرانس میں گزارا اور پھر فرانس کے ساتھ پہلے سے طے شدہ منصوبے کی بنیاد پر عراق چلے گئے۔ عراق پر امریکی حملے اور صدام حکومت کے خاتمے کے بعد بھی ایم کے او کے دہشت گردوں کو بدستور امریکا اور یورپ کی حمایت ملتی رہی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 7 تیر 1360 ہجری شمسی مطابق 28 جون 1981 کو جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر میں ہونے والے دہشت گردانہ بم دھماکے کی برسی کی مناسبت پر فرمایا تھا کہ اس جارحیت کا ارتکاب کرنے والے خبیث اور بے رحم دہشت گرد ملک سے بھاگنے کے بعد برسہا برس سے امریکا اور مغربی ممالک میں، جو دہشت گردی کے مقابلے اور انسانی حقوق کی حمایت کے علم بردار ہونے کے دعویدار ہیں، پناہ حاصل کئے ہوئے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے 7 تیر کے واقعہ کو ایک بڑا اور درس و عبرت کا حامل واقعہ قرار دیا۔