سعودی عرب اپنا رویہ تبدیل کرے
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیط جو کچھ ہی دنوں قبل اس عھدے پر براجمان ہوئے ہیں ان دنوں سعودی عرب کی پالیسیوں کی حمایت میں بیانات دے کر آل سعود کی کشیدگی پیدا کرنے کی پالیسیوں کا جواز پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
احمد ابوالغیط نے منگل کو العربیہ ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں آئندہ دنوں میں ہونے والے عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کے ایجنڈے کے بارے میں کہا کہ اس اجلاس میں ان کے بقول ایران کے خطروں کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بحرین نے بھی اس مسئلے پر تبادلہ خیال کرنے کی درخواست کی ہے۔
عرب لیگ کا آئندہ اجلاس موریتانیا میں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل کے بیانات پر تنقید کرے گا گویا اس نے خود عرب لیگ پر تنقید کی ہے۔ احمد ابوالغیط نے کہا کہ میں عربوں کی امنگوں اور عرب لیگ کے نظریات کو بیان کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل کے بیانات کے سامنے آنے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے بھی ایران، عراق شام اور حزب اللہ کے خلاف ہمیشہ کے تکراری الزامات کا ایک بار پھر اعادہ کیا، انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ سعودی عرب نے ایران کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔
عادل الجبیر نے علاقے میں آل سعود کی جانب سے دہشتگردی کی حمایت کی پردہ پوشی کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ایران ، شام، عراق کویت، بحرین اور سعودی عرب اور یمن میں دہشتگردی اور تشدد کی حمایت کررہا ہے اور اسی اقدام کے تحت فرقہ واریت وجود میں آئی ہے۔
ان الزامات کے تجزیہ میں دو نکات بیان کرنا ضروری ہے ان نکات سے پتہ چلتا ہےکہ یہ بیانات پہلے سے تیار شدہ منصوبے کے تحت سامنے آئے ہیں اور ایٹمی معاہدے کے بعد ایران کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسیوں کے تحت دئے جارہے ہیں۔
پہلا نکتہ ایٹمی معاہدے کے بعد ایران کی میزائل طاقت کو خطرہ بناکر پیش کرنا ہے۔ یہ بات ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے کے بار ےمیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی رپورٹ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
بان کی مون کی رپورٹ میں آیا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام ایٹمی معاہدے کی روح سے میل نہیں کھاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس دعوے کو سختی سے رد کیا ہے اور کہا ہے کہ بان کی مون کی رپورٹ میں یہ بات مکمل طرح سے سیاسی اھداف کےپیش نظر اور امریکہ کے دباؤ میں کہی گئی ہے۔
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل ابوالغیط اور سعودی وزیر خارجہ کے سیاسی اھداف پر مشتمل بیانات نیز اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی رپورٹ کے تجزیے میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ایران کو علاقے کے حالات سے دور کرکے اس پر لگائے گئے الزامات میں مشغول کردیا جائے، یعنی ایران کو فرسودہ الزامات میں پھنسا دیا جائے۔
ان اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کے خلاف بنائے گئے سناریو کثیر الجہات ہیں۔اس سے قبل یہی سناریو ایران کے ایٹمی معاملے کو لے کر اور اسے خطرہ بناکر انجام دیا جارہا تھا لیکن ایٹمی معاہدے کے بعد کسی حد تک ایٹمی مسئلہ کے تعلق سے الزامات کا سلسلہ ختم ہوگیا لیکن اب ایران کے میزائل پروگرام کو بہانہ بناکر اسے علاقے کی سلامتی کے لئے خطرہ قراردیا جا رہا ہے۔
مسئلہ یہ ہےکہ سعودی عرب علاقے میں بلند پروازی پر مبنی منصوبے رکھتا ہے اور اسی اپروچ سے ریاض نے یمن پر جنگ مسلط کی ہے جبکہ شام، بحرین اور لبنان بھی آل سعود کی مداخلت پسندانہ اور تخریبی پالیسیوں کے نتیجے میں بحران کا شکار ہیں اور ان ملکوں میں حالات نہایت پیچیدہ ہوچکے ہیں۔
سعودی عرب نے یمن پر جنگ مسلط کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تکفیری صیہونی دہشتگردوں کی حمایت بھی کررہا ہے، اس کے علاوہ بحرین میں بھی آل خلیفہ کے کارندوں کی مدد کرکے عوام پر تشدد ڈھانے میں شریک ہے۔ ریاض دیکھ رہا ہے کہ اسے علاقے میں شروع کئے ہوئے سیاسی تنازعات میں شکست ہورہی ہے اور وہ یہ کوشش کررہا ہے کہ علاقے میں بحران سازی اور ایران سے مقابلہ کرنے کے لئے عرب لیگ کی توانائیوں سے استفادہ کرے۔
خلیج فارس کے عرب ملکوں کی تعاون کونسل اور عرب لیگ نے حال ہی میں سعودی عرب کے دباؤ میں حزب اللہ لبنان کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کرکے صیہونی حکومت کو خوش کردیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہےکہ سعودی عرب کی یہ پالیسیاں کس حد تک ریاض کی مدد کرسکتی ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ان خود ساختہ بحرانوں سے باہر آنے کی واحد راہ اپنی پالیسیوں کی اصلاح اورماضی کی غلطیوں کا تدارک کرنا ہے۔