کابل میں دہشت گردانہ بم دھماکے
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے خونریز بم دھماکے کے بعد اس ملک کے صدر محمد اشرف غنی نے افغانستان میں ایک روز کے عام سوگ کا اعلان کیا۔
انھوں نے کابل میں ان دہشت گردانہ بم دھماکوں کا شکار ہونے والے افراد کے احترام میں اتوار کوعام سوگ کا اعلان کرتے ہوئے ٹیلیویژن سے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان، دہشت گردی کو شکست دے کر رہے گا۔
افغانستان کے صدر نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ کابل میں دہشت گردانہ دھماکے کے ذمہ دار عناصر، افغانستان کے سماج اور افغان عوام میں تفرقہ پیدا کرنے کے درپے تھے، کہا کہ دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کبھی پورے نہیں ہوں گے۔
کابل کے طبی اور سیکورٹی ذرائع کی رپورٹوں کے مطابق ہفتے کے روز کابل میں ہونے والے دہشت گردانہ بم دھماکے میں تقریبا اسّی افراد جاں بحق اور تین سو دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
یہ بم دھاکے اس وقت ہوئے جب افغانستان کی ہزارہ قوم کے ہزاروں افراد، بامیان کے بجائے سالنگ کے راستے ترکمنستان سے بجلی درآمد کئے جانے کے خلاف پرامن احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس دہشت گردانہ بم دھماکے کی ذمہ داری داعش دہشت گرد گروہ نے قبول کی ہے۔
سیاسی مبصرین کے نقطہ نظر سے کابل کا دہشت گردانہ بم دھماکے، کئی اعتبار سے غور طلب سمجھےجاتے ہیں۔ پہلے یہ کہ دہشت گرد گروہ داعش نے یہ دہشت گردانہ بم دھماکے کر کے افغانستان میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
دوسرے یہ کہ یہ دہشت گردانہ بم دھاکہ شیعہ مسلمانوں خاص طور سے ہزارہ قوم کے افراد کے درمیان کیا گیا ہے جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ داعش دہشت گرد گروہ افغان اقلیتوں منجملہ شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنا کر اس ملک میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
تیسرے یہ کہ داعش دہشت گرد گروہ، عوام کے درمیان بم دھماکہ اوران میں رعب و وحشت پھیلا کر ان شکستوں کا بدلا لینا چاہتا ہے جو حال ہی میں افغانستان کے مختلف علاقوں میں افغان فوج کے ہاتھوں اس گروہ کو ہوئی ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان نے کابل کے ان دھماکوں کی مذمت کی ہے تاہم اس گروہ کا تشدد پسندانہ رویہ اور افغانستان کے مختلف علاقوں منجملہ کابل میں اس گروہ کے خونریز حملے، اس بات کا باعث بنے ہیں کہ حکومت افغانستان کو اپنے ملک کے شہریوں کو جانی تحفظ فراہم کرنے میں کافی مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بنابریں افغان عوام کے لئے یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ طالبان گروہ، کابل بم دھماکے کی مذمت کر کے اس قسم کے جرائم کے ارتکاب سے خود کو الگ کرلیں۔ افغان عوام کا خیال ہے کہ طالبان کی نظر میں افغان عوام کی جان و مال کو اگر کوئی اہمیت حاصل ہے تو اس گروہ کو چاہئے کہ امن کے عمل میں تعاون کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے نہ کہ خونریز حملے جاری رکھتے ہوئے افغانستان میں داعش جیسے دہشت گرد گروہ کے وجود کی راہ ہموار کرے۔
اس درمیان مغربی ممالک خاص طور سے امریکہ، کہ گذشتہ پندرہ برسوں سے زائد عرصے سے افغانستان پر جس کا قبضہ رہا ہے، کابل جیسے دہشت گردانہ بم دھماکوں کو بہانہ بنا کر افغانستان میں اپنی فوجی پوزیشن مستحکم بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جان کربی کا یہ بیان کہ کابل جیسے بم دھماکوں سے افغانستان میں فوجی مشن جاری رکھنے کے لئے واشنگٹن کا عزم اور زیادہ مستحکم ہوگا، اسی سلسلے میں قابل غور ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے دو ہزار ایک میں افغانستان پر حملہ اوراس ملک پر قبضہ کیا۔ مگر پندرہ برسوں سے بھی زیادہ عرصہ گذرجانے کے باوجود نہ صرف اس ملک میں دہشت گردی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ افغان عوام کو بدستور بدامنی اورخونریزحملوں کا سامنا ہے۔
بنابریں افغان عوام کے اذہان میں یہ سوال اٹھا ہوا ہے کہ امریکہ کی نظر میں ان کے ملک میں واشنگٹن کی فوجی پوزیشن مستحکم بنانا اور یا افغانستان کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرنا اہمیت رکھتا ہے یا دہشت گردی کا مقابلہ کرنا۔؟
اس میں دو رائے نہیں کہ افغانستان میں جاری دہشت گردی اس ملک میں فوجی موجودگی جاری رکھنے کے لئے امریکہ کے لئے ایک بہانہ بنی ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس سے افغان عوام میں اور زیادہ برہمی بڑھتی جا رہی ہے۔