سعودی عرب دلدل میں پھنس گیا
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے ایک بار پھر الزام لگایا ہے کہ ایران عرب ملکوں کے امور میں مداخلت کررہا ہے۔
عادل الجبیر نے پیر کے دن موریتانیا کے دارالحکومت نواکشوت میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس سے خطاب میں علاقے میں جاری خونریز تنازعات میں آل سعود کے کردار کی طرف اشارہ کئے بغیر کہا کہ ایران علاقے میں انتہا پسندی اور دہشتگردی کی حمایت کررہا ہے۔ عادل الجبیر نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ عرب لیگ کے ایجنڈے پر رہا ہے۔
انہوں نے ایسے عالم میں حقائق کی تحریف کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو چیز صیہونی حکومت کی مجرمانہ کارروائیوں کے جاری رہنے کا سبب بنی ہے وہ تحفظ ہے جو سعودی عرب نے صیہونیوں کو فراہم کررکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کبھی بھی مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے حق میں نہیں تھا اوراگراس نے سازش پرمبنی کوئی تجویز پیش بھی کی ہے تو اس کا ھدف صیہونیوں کو استحکام بخشنا اور فلسطینیوں کی شناخت ختم کرنا نیز فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔ سعودی عرب نے یہی پالیسی ایک الگ شکل میں شام میں اپنائی ہے۔
سعودی عرب نے ہمیشہ شام کے بحران کے پرامن حل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ یمن کے بارے میں بھی سعودی عرب کی پالیسی یہی رہی ہے۔ دراصل سعودی عرب کی پالیسی یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے مقابل استقامت کے محاذوں کو تباہ کردے۔ سعودی عرب، عرب لیگ اور خلیج فارس تعاون کونسل کے اجلاس میں عالم اسلام کے بحرانوں اور مسائل کی اصلی وجوہات تلاش کرنے کےبجائے ایسے بیان جاری کررہا ہے جن میں حزب اللہ لبنان کو دہشتگرد ظاہر کرنے، شام کی حکومت کو سرنگوں کرنے اور ایران کے خلاف مشکوک الزامات لگانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس اقدام کا ھدف علاقے میں تفرقہ پھیلانا ہے۔
گذشتہ روز کا عرب لیگ کا اجلاس جس پر کئی ہفتوں سے کام ہورہا تھا وہ بھی ان اقدامات سے الگ نہیں ہے۔ سعودی عرب کے وزیرخارجہ نے اور ان کے ساتھ بحرین کے نمائندے نے یہ کوشش کی ہے کہ ایران کو علاقے کی مشکلات اور مسائل کا سبب قراردیں۔
عادل الجبیر نے اس نشست میں دعوی کیا کہ عرب ملکوں کے امور میں ایران کی مداخلت اور اپنے انقلاب کو برآمد کرنے کی کوشش اچھی ہمسائیگی کے اصول اورعالمی آداب سے تضاد رکھتے ہیں اوراس سے فتنے پھیلتے ہیں اور تشویشیں بڑھتی ہیں۔
آل خلیفہ کے نائب وزیراعظم محمد بن مبارک بن حامد آل خلیفہ نے بھی ایران کے خلاف ان ہی الزامات کی تکرار کی اور کہا کہ دہشتگردی سے مقابلہ بقول ان کے ایران کی مداخلت سے مقابلہ کرنے سے جڑا ہوا ہے۔
سعودی عرب نے دہشتگردی سے مقابلے کے لئے ایک نمائشی اتحاد تشکیل دیا ہے جبکہ وہ دہشتگردوں کے بجائے یمن میں عام شہریوں، عورتوں اور بچوں کو جنگی طیاروں سے حملے کرکے خاک و خون میں غلطاں کررہا ہے۔
تکفیری افکار کی ترویج میں سعودی عرب کی غلط پالیسیاں اورغلطیاں اس بات کا سبب بنی ہیں کہ اسلام پر انتہا پسندی اور دہشتگردی کے الزامات لگائے جائیں جبکہ حقیقی اسلام نے ان باطل افکار کی نفی کی ہے۔ سعودی عرب عالم اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کررہا ہے اوراسکی پالیسیاں عالم اسلام کے مفادات اورعالمی امن و سکیورٹی سے مکمل طرح سے تضاد رکھتی ہیں۔
سعودی عرب اپنی غیر منطقی پالیسیوں سے علاقے میں شدید عدم استحکام کا سبب بن چکا ہے۔ سعودی حکام کے شرمناک بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ خود ان بحرانوں میں گرفتار ہوچکے ہیں جو انہوں نے پیدا کئے ہیں اوراس دلدل سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں لیکن اپنے رویے کی اصلاح کرنے کے بجائے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن ان کی غلطیاں اس قدر واضح ہیں کہ عرب لیگ کے سربراہ بھی ان کی وجہ سے ظاہری طورپربھی اتفاق رائے قائم نہ کرسکے اور یہ اجلاس جسے دور روز تک چلنا چاہیے تھا ایک دن میں ہی ختم ہوگیا۔