افغانستان کے تعلق سے روس کی نئی پالیسی
افغانستان میں امریکہ اور روس کشمکش سے اس ملک کو شدید نقصان پہنچے گا۔
گذشتہ سولہ برسوں سے افغانستان پر امریکہ اور نیٹو کا قبضہ ہے اور روس نہ صرف افغانستان کی صورتحال میں دخل دینے کا چنداں رجحان نہیں رکھتا تھا بلکہ ابتدا میں اس نے اس تصور کے ساتھ، کہ امریکہ افغانستان کے دلدل میں پھنس جائے گا، ایک طرح سے افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا خیر مقدم کیا تھا۔
افغانستان میں خشخاش کی کاشت اور منشیات کی پیداوار میں توسیع آنے اور اس کی اسمگلنگ کے لئے روس کو ٹرانزٹ روٹ کے طور پر استعمال کرنے سے روس میں سماجی مسائل پیدا ہوگئے ہیں جس کی بنا پر اس نے شدید اعتراضات کئے ہیں۔ روس نے کہا ہے کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان میں منشیات کے مافیا اور دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام و ناتوان رہے ہیں۔ افغانستان میں داعش کے وجود میں آنے کے بعد افغانستان کے تعلق سے روس کی پالیسیوں میں تبدیلی آگئی۔ ماسکو نے اپنے ملک میں حالات پر کنٹرول رکھنے کے لئے افغانستان کے تعلق سے فعال پالیسیاں اپنا لی ہیں۔ اس کا پتہ اس بات سے لگتا ہےکہ افغانستان کے امور میں روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت افغانستان اور اس کی قومی فوج کو مضبوط نہیں بنایا جاتا ہے تو آئندہ بیس برسوں میں افغانستان کے ٹکڑے ہوجائیں گے اور یہ امر علاقے کے ممالک بالخصوص روس کے مفادات کے منافی ہوگا۔ روس نے چونکہ افغانستان پر قبضہ کیا تھا لھذا افغان عوام کے نزدیک اس کی ساکھ اچھی نہیں ہے لیکن اب وہ افغانستان میں امن قائم کرنے میں تعاون کرنے کے لئے اس ملک میں اپنی ساکھ سدھارنے کی کوشش ک ررہا ہے اور اس ملک میں اپنا رول ادا کرنا چاہتا ہے۔ کابلوف کا یہ بیان کہ افغانستان کی ارضی سالمیت کا تحفظ کرنے کے لئے حکومت اور فوج کو مضبوط بنانا ہوگا ایک طرح سے گذشتہ سولہ برسوں میں امریکہ اور نیٹو کی کارکردگی پر ایک طرح کی تنقید ہے۔اس کے مقابلے میں امریکہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں بدامنی کا بازار گرم ہے اور طالبان گروہ نئے حملوں کے لئے آمادہ ہو رہا ہے۔اس طرح امریکہ افغانستان میں اپنی اور نیٹو کی افواج کی موجودگی کا جواز پیش کر رہا ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں کے ترجمان نے دعوی کیا ہے کہ اٹھانویں بیرونی گروہوں میں سے تقریبا بیس گروہ افغانستان اور پاکستان کی مشترکہ سرحد پر سرگرم عمل ہیں جبکہ تیرہ عالمی دہشتگرد گروہ افغانستان میں فعال ہیں۔ اس بات میں کسی طرح کا شک نہیں ہے کہ یہ اعداد و شمار افغانستان اور علاقے کے ملکوں کے لئے نہایت تشویش ناک ہیں۔البتہ ان اقدامات سے پتہ چلتا ہےکہ امریکہ منصوبہ بند طریقے سے افغانستان کے بحران سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے اور علاقائی ملکوں منجملہ روس کو ڈرانا چاہتا ہے۔ امریکہ کو یہ خوف ہے کہ کہیں روس افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنا شروع نہ کردے اسی وجہ سے وہ سیکورٹی خطروں کو طالبان اور داعش کے خطروں سے بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے۔ شام میں روس کی کامیابی اور ماسکو کی یہ تشویش کہ افغانستان سے مرکزی ایشیا اور ققفاز تک دہشتگردوں کو بھیجا جاسکتا ہے اس بات کا سبب بنی ہے کہ روس داعش سے مقابلہ کرنے کے لئے طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرے اور امریکہ بھی دہشتگردوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان کو صرف طالبان ہی سے خطرہ لاحق نہیں ہے لھذا مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان کے تعلق سے امریکہ اور روس نے مختلف پالیسیاں اپنائی ہیں اور یہ دونوں ممالک افغانستان میں اپنی ساکھ سدھارنا چاہتے ہیں البتہ دونوں ممالک خود کو افغان عوام کا نجات دہندہ اور امن و سکیورٹی کا محافظ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ادھر افغانستان میں مختلف حلقوں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ اس سرزمین پر امریکہ اور روس کی کشمکش سے افغانستان کو سیکورٹی کے لحاظ سے نقصان پہنچے گا اور کابل نے ان دونوں ملکوں سے مطالبہ کیا ہے دونوں اس کے ساتھ تعاون کریں تا کہ افغانستان ترقی کرسکے اور اسکے قومی اتحاد کو فائدہ پہنچے۔