Jan ۲۱, ۲۰۱۷ ۱۵:۳۱ Asia/Tehran
  • دفاعی اور خارجہ پالیسی میں ٹرمپ کے ابتدائی اقدامات

وائٹ ہاؤس نے جمعے کو ایک بیان میں امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے اصول و ضوابط کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کی حکومت کی خارجہ پالیسی، اس ملک کے قومی مفادات اور قومی سلامتی پر مرکوز ہے- امریکہ کی نئی حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے وہ امریکہ کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے اور اس ملک کو میزائل حملوں سے محفوظ رکھنے کی غرض سے جدید ترین اینٹی بیلیسٹک میزائل سسٹم کی تنصیب کو عملی شکل دے گی-

اسی طرح جمعے کو سینٹ کی جانب سے حتمی توثیق کے ساتھ ہی امریکہ کے ریٹائرڈ جنرل جیمز میٹیس نے نئے وزیر دفاع کے عہدے پر اپنی کارکردگی کا آغاز کردیا- امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریب حلف برداری کے انعقاد کے ساتھ ہی ، ملکی اور غیر ملکی سطح پر دیئے گئے اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے سلسلے میں واضح اقدامات کا آغاز کیا- اینٹی بیلسٹیک میزائل سسٹم کی توسیع کے اعلان کے ساتھ ہی خارجہ پالیسی کے اصول و ضوابط کا اعلان اور نئے وزیر دفاع کی حیثیت سے جیمز میٹیس کی سرگرمیوں کا آغاز یہ سب کچھ خارجہ پالیسی نیز اس ملک کی دفاعی اور فوجی پالیسی کےشعبے میں ایک نئے دور کا آغاز ہے - ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کا اہم محور ، طاقت کے ذریعے امن کا حصول ہے- درحقیقت ٹرمپ نے خارجہ پالیسی کے سلسلے میں ریالیسٹک رویہ اپنایا ہے کہ جس کی بنیاد، امریکہ کی نئی حکومت کے مدنظر اہداف تک رسائی کے لئے بین الاقوامی میدان میں طاقت کے استعمال پر استوار ہے- اس مسئلے کو امریکہ کی خارجہ پالیسی کے فوجی ہونے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے خاص طور پر ایسے میں کہ جب نئے وزیر دفاع یعنی جیمز میٹیس بھی امریکہ کے مختلف علاقوں میں جاری جھڑپوں کے بارے میں سخت موقف رکھنے میں شہرت رکھتے ہیں-

اس کے ساتھ ہی ٹرمپ کی جانب سے اپنائی گئی اس خارجہ پالیسی کے تناظر میں دہشت گردی سے مقابلے خاص طور پر داعش گروہ سے مقابلے کا ذکر کیا گیا ہے- اسی سلسلے میں تاکید کی گئی ہے کہ امریکہ ان گروہوں کو شکست دینے کے لئے، ضرورت پڑنے کی صورت میں  فوجی اتحاد کے ذریعے مشترکہ فوجی کاروائیاں انجام دے گا- اور جیسا کہ ٹرمپ نے اس سے پہلے بھی اعلان کیا تھا کہ شام میں امریکہ کی زیادہ تر توجہ، شام کی قانونی حکومت کو سرنگوں کرنے کے بجائے داعش سے مقابلے پر مرکوز ہوگی، اس صورت میں داعش کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کے لئے، شام میں واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان تعاون کا امکان بڑھ جائے گا- لیکن امریکہ کی خارجہ اور دفاعی پالیسی ، بڑی طاقتوں خاص طور پر روس اور چین کے ساتھ  متنازعہ مسائل پر مرکوز ہے- اس بارے میں واضح طور پر اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم کی تقویت کے مسئلے کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ جو واشنگٹن کے دعوے کے مطابق شمالی کوریا جیسے ملکوں کے ممکنہ میزائیلی حملوں کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہے- لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ اس سلسلے میں بڑی طاقتیں خاص طور پر روس اور چین، امریکہ کی نئی حکومت کے مد نظر ہیں-

ماسکو کے نقطۂ نظر سے واشنگٹن کا مقصد یہ ہے کہ اینٹی بیلسٹیک میزائل سسمٹم کی تعیناتی کے ذریعے اب وہ چاہے مشرقی یورپ میں ہو یا مشرقی ایشیا میں ، ایک ایٹمی جنگ ہونے کی صورت میں امریکہ پر روس اور چین کے بین البر اعظمی بیلسٹک میزائلوں کے حملے کو یا تو ناکام بنادے یا اس کے اثر کو کم کرسکے- ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کے مسائل سے روس اور امریکہ کے درمیان موجودہ اختلافات میں مزید اضافہ ہوگا- یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ امریکہ کے سابق صدر اوباما کی حکومت کے ساتھ ماسکو کا اصلی اختلاف، مشرقی یورپ میں اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم کی تعیناتی کے مسئلے پر تھا- مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی نئی حکومت کی جانب سے اعلان کی گئی خارجہ پالیسی اورجنگ پسندی کے رجحان کے حامل جیمز میٹیس کی وزیردفاع کی حیثیت سے تقرری اور اینٹی بیلسٹیک میزائل سسٹم کی تنصیب ، یہ سارے مسائل اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی حکومت خارجہ پالیسی میں جارحانہ نقطۂ نظر رکھتی ہے -                

ٹیگس