Jan ۳۱, ۲۰۱۷ ۱۶:۵۶ Asia/Tehran
  • ٹرمپ نے امریکہ کی قائم مقام اٹارنی جنرل کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قائم مقام اٹارنی جنرل سیلی ییٹس کو حکم عدولی پر فوراً برطرف کردیا ہے کیونکہ انہوں نے صدارتی حکم نامہ تسلیم کرنے سے انکار کرنے کے علاوہ سرکاری وکلاء کو بھی ہدایت دی تھی کہ وہ پناہ گزینوں اور امیگریشن سے متعلق حکومتی مقدموں کی پیروی نہ کریں۔

:ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی اور سات مسلم ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے حکم نامے کے خلاف سیلی ییٹس گزشتہ چند دنوں سے مسلسل عوامی بیانات دے رہی تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا یہ اقدام غیرقانونی اور غیر آئینی ہے جس پر کسی صورت عمل درآمد نہیں ہونا چاہئے۔ ییٹس کی برطرفی کے فوراً بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈینا بوئنٹے کو امریکا کا نیا اٹارنی جنرل مقرر کردیا ہے جنہوں نے گزشتہ شام خاموشی سے اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھالیا ہے۔

قائم مقام اٹارنی جنرل کے طور پر ییٹس کا تقرر سابق امریکی صدر باراک اوباما نے وائٹ ہاؤس میں اپنے آخری دنوں میں کیا تھا جبکہ اس سے پہلے بھی وہ ڈیموکریٹ حکومتوں میں ڈپٹی اٹارنی جنرل اور اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز رہ چکی تھیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ایک طرف امریکہ اور دنیا بھر میں ٹرمپ کے متنازعہ صدارتی حکم نامے کے خلاف احتجاج ہورہا ہے تو دوسری جانب خود امریکی سرکاری اہلکار بھی شدید بے چینی میں مبتلا ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے سو سے زائد اہلکاروں کے بعد قائم مقام امریکی اٹارنی جنرل بھی ٹرمپ کی متنازع امیگریشن پالیسی کے خلاف ہوگئیں اور اس کو غیرقانونی قراردے دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امیگریشن پالیسی چیلنج ہو تو کوئی وکیل مقدمہ نہ لڑے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے سو سے زائد اہلکار ایمیگریشن پالیسی کے خلاف ہوگئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے چند دہشت گرد روکنے کیلیے بیس کروڑ افراد پر پابندی درست نہیں ہے۔ ادھر وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ناراض محکمہ خارجہ کے اہلکار امیگریشن پالیسی تسلیم کریں ورنہ گھرجائیں۔ امریکی محکمہ انصاف نے بھی ٹرمپ کی ایمیگریشن پالیسی کا دفاع نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کے لیے امریکی سینیٹ کی عدالتی کمیٹی میں ووٹنگ آج ہوگی۔

اس امر کے پیش نظر کہ امریکی عوام نے گذشتہ چند دنوں کے دوران ایئرپورٹس پر اجتماع کرکے ٹرمپ کے حکم نامے کی مخالفت کی ہے اور اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے اس وقت یہ مخالفت، امریکی حکومت اور کانگریس میں بھی سرایت کرچکی ہے- سیلی ییٹس کی جانب سے ٹرمپ کے اس حکم نامے کی مخالفت اس سلسلے میں اہم ترین مخالفت شمار ہوتی ہے، جس نے ٹرمپ کے لئے ایسی صورتحال پیدا کردی کہ انہوں نے حواس باختگی کے عالم میں سیلی ییٹس کو ان کو عہدے سے برطرف کردیا- ٹرمپ نے سیلی ییٹس پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تقرری اوباما کے دور حکومت میں ہوئی تھی کہ جس نے سرحدوں اور غیر قانونی مہاجرت کے سلسلے میں بہت کمزور عمل کیا ہے-

دوسری جانب ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے اس حکم نامے کے خلاف قائم مقام اٹارنی جنرل کے موقف اختیار کرنے کے ساتھ ہی امریکی کانگریس کے ڈموکریٹس نے بھی اس ملک کی سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کیا- در حققیت اس وقت ٹرمپ خود کو ناچار پا رہے ہیں کہ وہ امریکہ کی ڈموکریٹ اوباما حکومت کے باقی بچے افراد کے ساتھ ، اپنے مد نظر افراد کے انتخاب کئے جانے تک کام انجام دیتے رہیں- جبکہ ان حکام میں سے بعض منجملہ قائم مقام اٹارنی جنرل کھل کر ٹرمپ کے اقدامات کی مخالف ہیں اور انہیں امریکی قوانین کے برخلاف سمجھتی ہیں -

اب اس وقت ٹرمپ کے سامنے ان مخالفتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دو صورت ہے یا تو وہ اپنے احکامات خاص طور پر سات اسلامی ملکوں کے باشندوں کی امریکہ میں داخلے پر پابندی کےاپنے فرمان پر عملدرآمد جاری رکھیں تو اس صورت میں ان کے پاس، ملکی اور غیرملکی سطح پر وسیع مخالفتوں کا سامنا کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے ، لیکن یہ کام کوئی آسان بھی نہیں ہے خاص طور پر ایسے میں جبکہ نہ صرف ان سات اسلامی ملکوں کے حکام نے بلکہ یورپ میں امریکہ کے اتحادی ملکوں کے سربراہوں نے بھی ٹرمپ کے اس اقدام کی مذمت کی ہے-

اقوام متحدہ کے دو سینئر عہدیداروں یعنی اس ادارے کے سیکریٹری جنرل آنٹونیو گوٹریش اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشنر زید رعد الحسین نے بھی صراحتا امریکی صدر کے حکم نامے کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور یہ مسئلہ ٹرمپ کے لئے بین الاقوامی چیلنج میں تبدیل ہوجائے گا- اور دوسرا آپشن یہ ہے کہ ٹرمپ اپنے اس ایگزکٹیو آرڈر سے پسپائی اختیار کرلیں اور یہ اقدام بھی ان کے کمزور ہونے کے مترادف ہوگا اور پھر وہ ناچار ہوں گے کہ عملی طور پر اپنے دیگر اقدامات میں بھی پسپائی اختیار کریں- اس طرح کے اقدام ابتدائے کار میں ہی ، ٹرمپ کی پوزیشن کو کاری ضرب لگانے کے مترادف ہیں-        

 

ٹیگس